فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
دوسرے یہ کہ، اگر ہر قِسم کی دنیا کی ترقی مراد ہو -جیسا کہ میرا بھی دل چاہتا ہے- تب بھی اِس میں اللہ تعالیٰ سے دعاکا ذکر ہے نہ کہ اُس کی تحصیل میں اِنہِماک اور مشغولی کا، اور اللہ تعالیٰ سے مانگنا خواہ ٹوٹے ہوئے جوتے کی اِصلاح ہی کیوں نہ ہو،یہ خود دین ہے۔ تیسرے یہ کہ، دنیا کے حاصل کرنے کو، اُس کے کمانے کو کون منع کرتا ہے؟ یقینا حاصل کیجیے، اور بہت شوق سے حاصل کیجیے، ہم لوگوں کی ہرگز یہ غرض نہیں ہے کہ خدا نہ خواستہ آپ دنیا جیسی مُغتَنم ومقصود چیز کو چھوڑ دیں، مقصد یہ ہے کہ جتنی کوشش دنیا کے لیے کریں اُس سے زیادہ نہیں تو کم ازکم اُس کے برابر تو دِین کے لیے کریں؛ اِس لیے کہ خود آپ کے قول کے موافق دین اور دنیا دونوں کی تعلیم دی گئی ہے؛ ورنہ میں پوچھتا ہوں کہ: جس قرآنِ پاک میں یہ آیت ارشاد فرمائی ہے اُسی کلام پاک کی وہ آیت بھی تو ہے جو اوپر گزر چکی: ﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِيْ حَرْثِہٖ﴾ [پ:۲۵] اور اُسی کلام پاک میں یہ بھی ہے: ﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہٗ فِیْهَا مَانَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ، ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَهَنَّمَ، یَصْلٰهَا مَذْمُوْماً مَّدْحُوْراً، وَمَنْ أَرَادَ الاٰخِرَۃَ وَسَعیٰ لَهَا سَعْیَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ، فَأُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْکُوْراً﴾ [پ:۱۵،ع:۲]اُسی کلامِ پاک میں ہے: ﴿ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا، وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ﴾[آل عمران ع:۳]، اُسی کلامِ پاک میں ہے: ﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ، وَّالاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقیٰ﴾ [پ:۵]اُسی کلامِ پاک میں ہے: ﴿وَمَاالْحَیٰوۃُالدُّنْیَاإِلَّا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ، وَّلَلدَّارُالاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ﴾ [سورۂ اَنعام] اُسی کلامِ پاک میں ہے: ﴿وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِباًوَّلَهْواً وَّغَرَّتْهُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا﴾ [أنعام] اُسی کلامِ پاک میں ہے: ﴿تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللہُ یُرِیْدُ الاٰخِرَۃَ﴾ [پ: ۱۰]اُسی کلامِ پاک میں ہے: ﴿أَرَضِیْمُ بِالْحَیٰوۃِالدُّنْیَا مِنَ الاٰخِرَۃِ، فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِيْ الاٰخِرَۃِ إِلَّا قَلِیْلٌ﴾ [پ:۱۰]اُسی کلامِ پاک میں ہے: ﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا نُوَفِّ إِلَیْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَهُمْ فِیْهَا لَایُبْخَسُوْنَ، أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِي الاٰخِرَۃِ إلَّا النَّارَ، وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَبٰطِلٌ مَّاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾[پ:۱۲]اُسی کلامِ پاک میں ہے: ﴿وَفَرِحُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا، وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا فِيْ الاٰخِرَۃِ إِلَّا مَتَاعٌ﴾ [پ:۱۲] اُسی کلامِ پاک میں ہے: ﴿فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ، ذٰلِکَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوْا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الاٰخِرَۃِ﴾ [پ:۱۴] اِن کے عِلاوہ بہت سی آیات ہیں جن میں دنیا وآخرت کا تَقابُل کیا گیا ہے، اِس وقت نہ اِحصاء مقصود نہ ضرورت، نمونے کے طور پر چند آیات اِختِصاراً لکھ دی ہیں،اور اِختصار ہی کی وجہ سے ترجَمے کے بجائے پارے کا حوالہ لکھ دیا ہے، کسی مُتَرجَم قرآن شریف سے ترجَمہ دیکھ لیجیے، مقصود سب کا یہ ہے کہ آخرت کے مقابلے میں جو لوگ دنیا کوترجیح دیتے ہیں وہ نہایت خُسران میں ہیں، اگر دونوں کو آپ نہیں سنبھال سکتے تو پھر صرف آخرت ہی قابلِ ترجیح ہے۔ مجھے انکار نہیں کہ دنیا کی زندگی میںآدمی ضروریاتِ دنیویہ کا سخت