فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
محتاج ہے؛ مگر اِس وجہ سے کہ آدمی کو بیت الخلا جانا لاَبُدّ ہے اوراُس کے بغیر چارہ نہیں، اِس لیے دن بھر وہیںبیٹھا رہے، اِس کو کوئی بھی عقلِ سلیم گوارا نہ کرے گی۔ حکمتِ الٰہی پر ایک نگاہِ عَمِیق ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ، شریعتِ مُطہَّرہ میں ایک ایک چیز کا اِنضِباط ہے، اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ وَعَمَّ نَوَالُہٗنے ایک ایک چیز کو واضح فرما دیا، نمازوں کے اوقات کی تقسیم نے صاف طور سے اِس جانب اشارہ کردیا کہ، روز وشب کے چوبیس گھنٹوں میں نصف بندے کا حق ہے -چاہے وہ اُس کو اپنی راحت میں خرچ کرے یا طلبِ مَعِیشت میں- اور نصف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، اور آپ کی تجویز کے موافق دین ودنیا کے ساتھ ساتھ رکھنے کا مُقتضیٰ بھی یہی ہونا چاہیے، کہ روز وشب میں سے آدھا وقت دین کے لیے خرچ ہونا چاہیے اور آدھا دنیا کے لیے؛ ورنہ اگر دنیاوی مشاغل -خواہ فکرِ مَعاش کے ہوں یا راحتِ بدن کے- نصف سے بڑھ گئے تو یقینا آپ نے دنیا کو راجح بنا لیا، پس آپ کی تجویز کے موافق بھی مُقتَضائے عَدل یہی ہے کہ، شب وروز کے ۲۴؍ گھنٹوں میں سے ۱۲؍گھنٹے دین کے لیے خرچ کیے جاویں؛ تاکہ دونوں کا حق ادا ہوجائے، اور اُس وقت یقینا یہ کہنا بجا ہوگا کہ: دنیا وآخرت دونوں کی حَسَنات کی تحصیل کا حکم کیا گیا ہے، اور اسلام نے رَہبانِیت نہیں سِکھلائی۔یہ مضمون اِس جگہ مقصود نہ تھا؛ بلکہ اشکال کے جواب میں تبعاً آگیا؛ اِس لیے مختصر ومُجمَل طور پر اِشارہ کرکے چھوڑ دیا۔ اِس فصل میں مقصود احادیثِ تبلیغ کا ذکر کرنا تھا، اُن میں سے سات احادیث پر اِکتفا کرتا ہوں، کہ ماننے والے کے لیے سات تو سات، ایک بھی کافی ہے، اور نہ ماننے والے کے لیے ﴿فَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَيَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ﴾ کافی سے زائد ہے۔ اخیر میں ایک ضروری گذارش یہ بھی ہے کہ: بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فتنے کے زمانے میں جب کہ بُخل کی اِطاعت ہونے لگے، اور خواہشاتِ نفسانیہ کا اتباع کیاجائے، دنیا کو دین پر ترجیح دی جائے، ہر شخص اپنی رائے کو پسند کرے دوسرے کی نہ مانے؛ اُس وقت میں نبیٔ کریم ﷺ نے دوسروں کی اِصلاح چھوڑ کر یکسوئی کا حکم فرمایا ہے؛ مگر مشائخ کے نزدیک ابھی وہ وقت نہیں آیا؛ اِس لیے جو کچھ کرنا ہے کرلو، خدا نہ کرے کہ وہ وقت دیکھتی آنکھوں آن پہنچے، کہ اُس وقت کسی قِسم کی اِصلاح ممکن نہ ہوگی۔ نیز اُن عیوب سے جن کا ذکر اُس حدیث شریف میں وارِد ہوا ہے، اہتمام سے بچنا ضروری ہے، کہ یہ فتنوں کے دروازے ہیں، اِن کے بعد سَرَاسَر فتنے ہی فتنے ہیں، نبیٔ کریم ﷺنے ایک حدیث میں اُن کو ہلاک کردینے والی چیزوں میں شمار کیا ہے۔ اَللّٰهُمَّ احْفَظْنَا مِنَ الْفِتَنِ، مَاظَهَرَ مِنْهَا وَمَابَطَنَ.