فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
غرض‘‘ پھر بھی آپ کی مُخالَفت کرتے ہیں، تو کوئی تو مجبوری اُن کو دَرپیش ہے جس کی وجہ سے یہ اپنے نفع کو بھی کھو رہے ہیں، اور آپ جیسے’’مُحسِن ومُربِّیوں‘‘ سے بگاڑ کر گویا اپنی دنیا خراب کر رہے ہیں۔ میرے دوستو! ذرا غور تو کرو، اگر یہ مُلَّانے کوئی ایسی بات کہیں جو قرآنِ پاک میں بھی صاف طور سے موجود ہوتو پھر تو اُن کی ضِد سے منھ پھیرنا نہ صرف عقل ہی سے دُور ہے؛ بلکہ شانِ اسلام سے بھی دُور ہے، یہ مُلَّانے خواہ کتنے ہی نا اہل ہوں؛ مگر جب کہ صَریح ارشادِ باری عَزَّ اسْمُہٗ اور ارشادِ نبیٔ کریم ﷺآپ تک پہنچارہے ہوں تو آپ پر اُن اِرشادات کی تعمیل فرض ہے، اور حکم عُدولی کی صورت میں جواب دَہی لازمی ہے، کوئی بے وَقوف سے بے وَقوف بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ: سرکاری قانون کی اِس لیے پرواہ نہیں کہ اعلان کرنے والا بھنگی تھا۔ آپ حضرات یہ نہ فرمائیں کہ: یہ مولوی جو دِینی کاموں کے لیے مخصوص ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمیشہ دنیا سے سوال کرتے ہیں؛ اِس لیے کہ میرا جہاں تک خیال ہے حقیقی مولوی اپنی ذات کے لیے شاید ہی کبھی سوال کریں؛ بلکہ جس قدر بھی وہ اللہ کی عبادت میں مُنہمِک ہیں اُسی قدر اِستِغناء سے ہدیہ بھی قبول فرماتے ہیں؛ البتہ کسی دینی کام کے لیے سوال کرنے میں إِنْ شَاءَ اللہوہ اِس سے زیادہ مَأجُور ہیں جتنا اپنے لیے سوال نہ کرنے میں۔ ایک عام اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ: دینِ محمدی -عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ- میں رَہبانیت کی تعلیم نہیں، اِس میں دِین ودنیا کو ساتھ رکھا گیا ہے، ارشادِ باری عَزَّ اسْمُہٗ ہے: ﴿رَبَّنَا اٰتِنَا فِيْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِيْ الاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً، وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ اور اِس آیتِ شریفہ پر بہت زور دیا جاتا ہے، گویا تمام قرآنِ پاک میں عمل کے لیے یہی ایک آیت نازل ہوئی ہے؛ لیکن : اول تو آیتِ شریفہ کی تفسیر رَاسِخِین فِيْ العِلْم سے معلوم کرنے کی ضرورت تھی، اور اِسی وجہ سے عُلَما کا ارشاد ہے کہ: صِرف لفظی ترجَمہ دیکھ کر اپنے کو عالمِ قرآن سمجھ لینا جَہالت ہے، صحابۂ کرامث اور علمائے تابعینؒ سے جو آیتِ شریفہ کی تفسیریں منقول ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:حضرت قتادہ ص سے مَروِی ہے کہ: دنیا کی بھلائی سے مراد عافیت اور بقدرِ کِفایت روزی ہے۔ حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْهَہٗ سے منقول ہے کہ: اِس سے صالح بیوی مراد ہے۔ حضرت حسن بصریؒ سے مروی ہے کہ: اِس سے مراد علم اور عبادت ہے۔ سُدِّیؒ سے منقول ہے کہ: پاک مال مراد ہے۔ حضرت ابن عمر صسے مَروی ہے کہ: نیک اولاد اور خِلقَت کی تعریف مراد ہے۔ جعفر صسے منقول ہے کہ: صِحت اور روزی کا کافی ہونا، اور اللہ پاک کے کلام کا سمجھنا، دُشمنوں پر فتح اور صالحین کی صُحبَت مراد ہے۔