فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ترجَمہ: نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جب میری اُمَّت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی تو اسلام کی ہَیبت ووَقعت اُس کے قُلوب سے نکل جائے گی، اور جب اَمربِالمَعروف اور نَہِی عن المُنکَر کو چھوڑ بیٹھے گی تو وَحی کی برکات سے محروم ہوجائے گی، اور جب آپس میں گالی گَلوچ اختیار کرے گی تو اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی نگاہ سے گِرجائے گی۔ فائدہ:اے بہی خواہانِ قوم! ترقیٔ اسلام اور ترقیٔ مسلمین کے لیے ہر شخص کوشاں اور سَاعِی ہے؛ لیکن جو اسباب اُس کے لیے اختیار کیے جارہے ہیں وہ تنزُّل کی طرف لے جانے والے ہیں، اگر درحقیقت تم اپنے رسول -رُوْحِیْ فِدَاہُﷺ- کو سَچا رسول سمجھتے ہو، اُن کی تعلیم کو سچی تعلیم سمجھتے ہو، تو پھر کیا وجہ ہے کہ جس چیز کو وہ سببِ مَرض بتارہے ہیں، جن چیزوں کو وہ بیماری کی جڑ فرما رہے ہیں وہی چیزیں تمھارے نزدیک سببِ شفا وصِحَت قرار دی جارہی ہیں؟۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’کوئی شخص اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اُس کی خواہش اُس دِین کے تابع نہ ہوجائے جس کو مَیں لے کر آیا ہوں‘‘؛ لیکن تمھاری رائے ہے کہ مذہب کی آڑ کو بیچ سے ہٹادیاجائے؛ تاکہ ہم بھی دِیگر اَقوام کی طرح ترقی کر سکیں۔ اللہ دکا ارشاد ہے: ﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِيْ حَرْثِہٖ، وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْهَا، وَمَا لَہٗ فِيْ الاٰخِرَۃِ مِنْ نَصِیْبٍ﴾ ترجَمہ: جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہو ہم اُس کی کھیتی میں ترقی دیںگے، اور جودنیا کی کھیتی کا طالب ہو ہم اُس کو کچھ دنیا دے دیںگے، اور آخرت میں اُس کا کچھ حصہ نہیں۔(بیان القرآن) حدیث میں آیا ہے کہ: جومسلمان آخرت کو اپنا نَصَبُ العَین بنالیتا ہے اللہ جَلَّ شَانُہٗ اُس کے دِل کوغَنِی فرمادیتے ہیں، اور دنیا ذلیل ہوکر اُس کے پاس آتی ہے، اور جو شخص دنیا کو اپنا نَصَبُ العَین قرار دیتا ہے پریشانیوں میں مُبتلا ہوتا ہے، اور دنیا میں سے جتنا حصہ مُقدَّر ہوچکا ہے اُس سے زیادہ ملتا ہی نہیں۔ نبیٔ کریم ﷺنے اِس آیتِ پاک کو تلاوت فرماکر ارشاد فرمایا کہ: اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا ارشاد ہے کہ: اے ابنِ آدم! تُو میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا مَیں تیرے سینے کو تَفکُّرات سے خالی کر دُوںگا، اور تیرے فَقر کو ہٹا دُوںگا؛ ورنہ تیرے دل میں (سینکڑوں طرح کے) مَشاغِل بھر دُوںگا اور تیرا فقر بند نہیں کروںگا۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کا ارشاد ہے، اور تمھاری رائے ہے کہ: مسلمان ترقی میں اِس لیے پیچھے ہٹے ہوئے ہیں کہ جو راستہ ترقی کے لیے اختیار کیا جاتا ہے یہ مُلَّانے اُس میں رُکاوٹیں پیدا کر دیتے ہیں، آپ ہی ذرا انصاف کی نظر سے مُلاحَظہ فرمائیں کہ: اگر یہ مُلَّانے ایسے ہی لالچی ہیں تو آپ حضرات کی ترقِّیات اُن کے لیے مَسرَّت کا سبب ہوںگی؛ کیوںکہ جب اُن کی روزی آپ کے زَعم میں آپ کے ذریعے سے ہے، تو جس قدر وُسعت اور فُتوحات آپ پر ہوںگی، وہ اُن کے لیے بھی سببِ وُسعت اور فتوحات ہوںگی؛ مگر یہ ’’خود