فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ترجَمہ: اُمُّ المؤمِنین حضرت جُویریہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا فرماتی ہیں کہ: حضورِاقدس ﷺ صبح کی نماز کے وقت اُن کے پاس سے نماز کے لیے تشریف لے گئے، اور یہ اپنے مُصَلَّے پر بیٹھی ہوئی (تسبیح میں مشغول تھیں)، حضور ﷺ چاشت کی نماز کے بعد (دوپہر کے وقت)تشریف لائے تو یہ اُسی حال میں بیٹھی ہوئی تھیں، حضورﷺ نے دریافت فرمایا: تم اُسی حال پر ہو جس پر مَیں نے چھوڑا تھا؟ عرض کیا: جی ہاں، حضورﷺنے فرمایا: مَیں نے تم سے (جدا ہونے کے)بعد چار کلمے تین مرتبہ پڑھے، اگر اُن کو اُس سب کے مقابلے میں تولاجائے جو تم نے صبح سے پڑھا ہے تو وہ غالب ہوجائیں، وہ کلمے یہ ہیں: سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ عَدَدَ خَلقِہٖ، وَرِضَا نَفسِہٖ، وَزِنَۃَ عَرشِہٖ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ. (اللہ کی تسبیح کرتا ہوں اور اُس کی تعریف کرتا ہوں بقدر اُس کی مخلوقات کے عدد کے، اور بقدر اُس کی مرضی اور خوش نو دی کے، اور بقدر وَزن اُس کے عرش کے، اور اُس کے کلمات کی مقدار کے مُوافق)۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: حضرت سعد ص حضورِاقدس ﷺکے ساتھ ایک صحابی عورت کے پاس تشریف لے گئے، اُن کے سامنے کھجور کی گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی ہوئی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھ رہی تھیں، حضورﷺ نے فرمایا: مَیں تجھے ایسی چیز بتاؤں جو اِس سے سَہل ہو (یعنی کنکریوں پر گننے سے سَہل ہو)،یا(یہ ارشاد فرمایا کہ:) اِس سے افضل ہو؟ سُبحَانَ اللہِ عَدَدَ مَاخَلَقَاخیر تک: اللہ کی تعریف کرتی ہوں بہ قدر اُس مخلوق کے جو آسمان میں پیدا کی، اور بہ قدر اُس مخلوق کے جو زمین میں پیدا کی، اور بہ قدر اُس مخلوق کے جو اِن دونوں کے درمیان ہے یعنی آسمان زمین کے درمیان ہے، اور اللہ کی پاکی بیان کرتی ہوں بہ قدر اُس کے جس کو وہ پیدا کرنے والا ہے، اور اِس سب کے برابر اَللہُ أَکْبَرُ، اور اِس کے برابر ہی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اور اِسی کی مانند لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ۔ تدبُّر: غوروفکر۔ عِجز:عاجز ہونا۔ عَبدِیت: بندگی۔ جَواز: جائز ہونا۔ جُملہ: تمام۔ مُنتَہائے کمال: کمال کی اِنتِہا۔ سَرگِروہ: امام۔ گَوارا: پسند۔ فائدہ:مُلاَّعلی قاریؒ نے لکھا ہے کہ: اِن کیفیات کے ساتھ تسبیح کے افضل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ، اِن الفاظ کے ذکر کرنے سے اِن کیفیات اور صفات کی طرف ذہن مُتوجَّہ ہوگا، اور یہ ظاہر ہے کہ جتنابھی تدبُّر اور غوروفکرزیادہ ہوگا اُتنا ہی ذکر افضل ہوگا؛ اِس لیے قرآن پاک جو تدبُّر سے پڑھا جائے وہ تھوڑا سابھی اُس تلاوت سے بہت افضل ہے جو بِلاتدبُّر کے ہو۔(مرقاۃ المفاتیح۵؍۱۰۹) اور بعض عُلَما نے کہا ہے کہ: اَفضَلِیَّت اِس حیثیت سے ہے کہ، اِس میں اللہدکی حمد وثنا کے شمار سے عِجز کا اِظہار ہے، جو کمال ہے عَبدِیت کا۔ اِسی وجہ سے بعض صوفیا سے نقل کیا گیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ: گناہ تو بِلا حساب اور بے شمار کرتے ہو اور اللہ کے پاک نام کو شمار سے اور گِن کر کہتے ہو!۔(مرقاۃ المفاتیح۵؍۱۱۵) اِس کا مطلب یہ نہیں کہ شمار نہ کرنا چاہیے، اگر ایساہوتا تو پھر احادیث میں کثرت سے خاص خاص اوقات میں شمار کیوں بتائی جاتی؟ حالاںکہ بہت سی احادیث میں خاص خاص مقداروں پر خاص خاص وعدے فرمائے گئے ہیں؛ بلکہ اِس کامطلب یہ ہے کہ، صرف شمار پر قَناعت نہ کرنا چاہیے؛ بلکہ جو اَورَاد