فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
سے گزر جائے تو اپنے سب اَعمال بتادے گا؟ وہ اِس کا وعدہ کرے گا کہ مَیں سچ مُچ سب بتادوںگا، اور اللہ کی عزت کی قَسم کھا کر کہے گا کہ: کچھ نہیں چھپاؤںگا، وہ کہیںگے کہ: اچھا! سیدھاکھڑا ہوجا اور چل، وہ سَہولت سے پُل صِراط پر گزر جائے گا، اورپار ہوجانے کے بعد اُس سے پوچھا جائے گا کہ: اچھا! اب بتا، وہ سوچے گا کہ: اگر مَیں نے اِقرار کرلیا تو ایسا نہ ہو کہ مجھ کو واپس کردیاجائے؛ اِس لیے صاف انکار کردے گا کہ مَیں نے کوئی بُرا عمل نہیں کیا، فرشتے کہیںگے کہ: اچھا! اگر ہم نے گواہ پیش کردیے تو؟ وہ اِدھر اُدھر دیکھے گاکہ کوئی آدمی آس پاس نہیں، اُس کو خَیال ہوگا کہ: اب گواہ کہاں سے آئیںگے؟ سب اپنے اپنے ٹھکانے پہنچ گئے ہیں؛ اِس لیے کہے گا کہ: اچھا! لاؤ گواہ، تو اُس کے اعضا کو حکم دیا جائے گا اور وہ کہنا شروع کریںگے، تومجبوراً اُس کو اقرار کرنا پڑے گا، اور کہے گا کہ: بے شک ابھی اَور بھی بہت سے مُہلِک گناہ بیان کرناباقی ہیں، تو ارشاد ہوگا کہ: اچھا! ہم نے مغفرت کردی۔(طبرانی فی الکبیر،۸؍۱۸۵حدیث:۷۶۶۹) غرض اِن وُجوہ سے ضرورت ہے کہ، آدمی کے اعضا سے نیک کام بھی بہ کثرت ہوں؛ تاکہ گواہ دونوں قسم کے مل سکیں۔ اِسی لیے حضورِ اقدس ﷺنے اِس حدیثِ بالا میں انگلیوں پرشمار کرنے کا حکم فرمایا ہے، اِسی وجہ سے دوسری احادیث میں مسجد میں کثرت سے آنے جانے کاحکم ہے، کہ نشاناتِ قدم بھی گواہی دیںگے، اور اُن کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے لیے بُرائی کا گواہ کوئی بھی نہ ہو کہ گناہ کیے ہی نہیں، یا توبہ وغیرہ سے مُعاف ہوگئے، اور بھلائی اور نیکی کے گواہ سینکڑوں ہزاروں ہوں!! جس کی سَہل ترین صورت یہ ہے کہ، جب کوئی گناہ صادر ہوجائے فوراً توبہ سے اُس کو مَحو کرڈالیں، پھر وہ کَالعَدَم ہوجاتے ہیں -جیسا کہ بابِ دوم فصلِ سوم حدیث ۳۳؍ کے تحت میں گزر چکا ہے- اور نیکیاں اعمال ناموں میں باقی رہیں جس کے گواہ بھی موجود ہیں، اور جن جن اَعضا سے یہ نیک اعمال کیے ہیں وہ سب گواہی دیں۔ مُتعدَّد احادیث میں خود نبیٔ اکرم ﷺ کا انگلیوں پر گِننا مختلف الفاظ سے نقل کیا گیا ہے، حضرت عبداللہ بن عَمروص فرماتے ہیں کہ: نبیٔ اکرم ﷺ (انگلیوں پر )تسبیح گنتے تھے۔ اِس کے بعد حدیثِ بالا میں اللہ کے ذکر سے غفلت پر رحمتِ اِلٰہیہ سے محروم کیے جانے کی وعید ہے، اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے محروم رہتے ہیں وہ اللہ کی رحمت سے بھی محروم رہتے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ: تم مجھے یاد کرو، مَیں (رحمت کے ساتھ)تمھارا ذکر کروںگا۔ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اپنی یاد کو بندے کی یاد پر مُرتَّب فرمایا، قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: ﴿وَمَن یَعْشُ عَن ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطَاناً فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ، وَإِنَّہُمْ لَیَصُدُّونَہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُونَ