فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
فرمایا کہ: تم بھی کچھ کہو، اِس پر اُنھوں نے سر جھکاکر روتے ہوئے فرمایا کہ: ’’عاشق وہ ہے جو اپنی خُودی سے جاتا رہے، خدا کے ذکر کے ساتھ وابَستہ ہوگیا ہو، اور اُس کا حق ادا کرتا ہو، دل سے اللہ کی طرف دیکھتا ہو، اُس کے دل کو اَنوارِہَیبت نے جَلادیا ہو، اُس کے لیے خدا کا ذکر شراب کا پیالہ ہو، اگر کلام کرتا ہوتو اللہ ہی کا کلام ہو، گویا حق تَعَالیٰ شَانُہٗہی اُس کی زبان سے کلام فرماتا ہے، اگر حرکت کرتا ہو تو اللہ ہی کے حکم سے، اگر تسکین پاتا ہوتو اللہ ہی کے ساتھ، اور جب یہ حالت ہوجاتی ہے تو پھر کھانا، پینا،سونا، جاگنا؛ سب کاروبار اللہ ہی کی رَضا کے واسطے ہوجاتے ہیں، نہ دنیا کا رَسم ورِواج قابلِ اِلتِفات رہتا ہے نہ لوگوں کی طَعن وتَشنِیع قابلِ وَقعت‘‘۔(روض الریاحین،ص:۹۳حکایت:۱۰۰) حضرت سعید بن المُسیِّبؒ مشہور تابعی ہیں، بڑے مُحدِّثین میں شمار ہیں، اُن کی خدمت میں ایک شخص عبداللہ بن اَبی وَداعہ کثرت سے حاضر ہوا کرتے تھے، ایک مرتبہ چند روز حاضر نہ ہوسکے، کئی روز کے بعد جب حاضر ہوئے تو حضرت سعیدؒ نے دریافت فرمایا: کہاں تھے؟ عرض کیا کہ: میری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے، اُس کی وجہ سے مَشاغل میں پھنسا رہا، فرمایا: ہم کو خبر نہ کی، ہم بھی جنازے میں شریک ہوتے، تھوڑی دیر کے بعد مَیں اُٹھ کر آنے لگا، فرمایا: دوسرا نکاح کرلیا؟ مَیںنے عرض کیا: حضرت! مجھ سے کون نکاح کردے گا؟ دو تین آنے کی میری حیثیت ہے، آپ نے فرمایا: ہم کر دیںگے، اور یہ کہہ کر خطبہ پڑھا اور اپنی بیٹی کا نکاح نہایت معمولی مہر آٹھ، دس آنے پر مجھ سے کردیا، (اِتنی مقدار مہر کی اُن کے نزدیک جائز ہوگی جیسا کہ بعض اماموں کا مذہب ہے، حَنفِیَّہ کے نزدیک ڈھائی روپئے سے کم جائز نہیں)نکاح کے بعد مَیں اُٹھا اور اللہ ہی کو معلوم ہے کہ مجھے کس قدر مَسرَّت تھی! خوشی میں سوچ رہا تھا کہ، رخصتی کے انتظام کے لیے کس سے قرض مانگوں؟ کیا کروں؟ اِسی فکر میں شام ہوگئی، میرا روزہ تھا، مغرب کے وقت روزہ افطار کیا، نماز کے بعد گھر آیا، چَراغ جَلایا، روٹی اور زیتون کا تیل موجود تھا، اُس کو کھانے لگا کہ کسی شخص نے دروازہ کھَٹکھٹایا، مَیں نے پوچھا: کون ہے؟ کہا: سعید ہے، مَیں سوچنے لگا کہ: کون سعید ہے؟ حضرت کی طرف میرا خَیال بھی نہ گیا، کہ چالیس برس سے اپنے گھر یامسجد کے سِوا کہیں آنا جا نا تھا ہی نہیں، باہر آکر دیکھا کہ: سعید بن المُسیِّب ہیں، مَیں نے عرض کیا:آپ نے مجھے نہ بُلا لیا، فرمایا: میرا ہی آنا مناسب تھا، مَیں نے عرض کیا: کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: مجھے یہ خَیال آیا کہ اب تمھارا نکاح ہوچکا ہے، تنہا رات کو سونا مناسب نہیں؛ اِس لیے تمھاری بیوی کو لایا ہوں، یہ فرماکر اپنی لڑکی کو دروازے کے اندر کردیا، اور دروازہ بند کرکے چلے گئے، وہ لڑکی شرم کی وجہ سے گِر گئی، مَیں نے اندر سے کِواڑ بند کیے، اور وہ روٹی اور تیل -جو چَراغ کے سامنے رکھا تھا- وہاں سے ہٹادیا، کہ اُس کی نظر نہ پڑے، اور مکان کی چھت پر چڑھ کر پڑوسیوں کو آواز دی، لوگ جمع