فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کرنے والے کو ٹوک نہ سکیں اور سکوت کریں یہ بھی نہیں، بلکہ ہر طرح سے اُس کی حِمایت کریںگے، اگر اِس پر کوئی دوسرا مُطالَبہ کرنے والا کھڑا ہوا تو اُس کامقابلہ کریںگے، کسی دوست نے چوری کی، ظلم کیا، عَیَّاشی کی، اُس کے حوصلے بلند کریںگے، اُس کی ہر طرح مدد کریںگے، کیا یہی ہے ہمارے ایمان کامُقتَضیٰ؟ یہی ہے دین داری؟ اِسی پر اسلام کے ساتھ ہم فخر کرتے ہیںیا اپنے اسلام کو دوسروں کی نگاہ میں بھی بدنام کرتے ہیں اور اللہ کے یہاں خود بھی ذلیل ہوتے ہیں؟۔ ایک حدیث میں ہے کہ: جو شخص عَصَبِیَّت پر کسی کو بُلائے یا عصبیت پر لڑے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(مسلم،کتاب الامارۃ،باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظہورالفتن، ۲؍۱۲۷ حدیث: ۱۸۴۸) دوسری حدیث میں ہے کہ: عصبیت سے یہ مراد ہے کہ ظلم پر اپنی قوم کی مدد کرے۔(ابوداود، کتاب الادب،باب العصبیۃ،ص:۶۹۸حدیث:۵۱۱۹) ’’رَدغَۃُ الخِبال‘‘ وہ کیچڑ ہے جو جہنَّمی لوگوں کے لَہُو، پِیپ وغیرہ سے جمع ہوجائے۔ کس قدر گندی اور اَذیَّت دینے والی جگہ ہے! جس میں ایسے لوگوں کو قید کردیاجائے گا جو مسلمانوں پر بہتان باندھتے ہوں۔ آج دنیا میں بہت سَرسَری معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کے مُتعلِّق جو چاہا منھ بھر کر کہہ دیا، کَل جب زبان سے کہی ہوئی ہربات کو ثابت کرنا پڑے گا، اور ثبوت بھی وہی جو شرعاً مُعتبر ہو، دنیا کی طرح نہیں کہ چَرب لِسانی اور جھوٹی باتیں ملاکر دوسرے کو چُپ کر دیا جائے، اُس وقت آنکھیں کھلیںگی کہ ہم نے کیا کہا تھا اور کیا نکلا؟۔ نبیٔ کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ: آدمی بعض کلام زبان سے ایسا نکلتا ہے جس کی پرواہ بھی نہیں کرتا؛ لیکن اُس کی وجہ سے جہنَّم میں پھینک دیا جاتا ہے۔(بخاری،کتاب الرقاق،باب حفظ اللسان۲؍۹۵۹ حدیث:۶۴۷۸) ایک حدیث میں ہے کہ: آدمی بعض بات صرف اِس وجہ سے کہتا ہے کہ لوگ ذرا ہنس پڑیںگے؛ لیکن اُس کی وجہ سے اِتنی دُور جہنَّم میں پھینک دیا جاتا ہے جتنی دُور آسمان سے زمین ہے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ: زبان کی لغزش، پاؤں کی لغزش سے زیادہ سخت ہے۔(مسند احمد،۔۔۔۔۔حدیث:۱۱۳۳۱) ایک حدیث میں ہے: جو شخص کسی کو کسی گناہ سے عار دِلاوے وہ خود مرنے سے پہلے اُس گناہ میں مُبتلا ہوتا ہے۔(ترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ،باب،۲؍۷۷حدیث:۲۵۰۵) امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ: وہ گناہ مراد ہے جس سے گنہ گار توبہ کرچکا ہو۔ حضرت ابوبکر صدیق ص اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر کھینچتے تھے، کہ تیری بہ دولت ہم ہلاکتوں میں پڑتے ہیں۔(موطا مالک،کتاب الجامع،باب مایخاف من اللسان، ۔۔۔۔۔۔۔ حدیث:۱۸۱۰) ابنُ المُنکَدِرؒ -مشہور مُحدِّثین میں ہیں اور تابعی ہیں- اِنتقال کے وقت رونے