فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
لگالے)۔ایک حدیث میں اِس کے بعد لَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَإِلَّابِاللّٰہِ بھی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: اِن کلموں میں سے ہرکلمے کے بدلے ایک درخت جنت میں لگایا جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ: جو شخص سُبحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمدِہٖپڑھے گا، ایک درخت جنت میں لگایا جاوے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ: حضورِ اقدس ﷺ تشریف لے جارہے تھے، حضرت ابوہریرہ ص کو دیکھا کہ ایک پودا لگارہے ہیں، دریافت فرمایا: کیا کررہے ہو؟ اُنھوں نے عرض کیا: درخت لگارہا ہوں، ارشاد فرمایا: مَیں بتاؤں بہترین پودے جو لگائے جاویں؟سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ؛ ہر کلمے سے ایک درخت جنت میں لگتا ہے۔ چَٹیَل: خالی۔ مَسکَن: گھر۔ مُہَیَّا: حاصل۔ نَشو ونُما: ترقی۔ فائدہ: حضورِاقدس ﷺکے ذریعے سے حضرت ابراہیم خلیلُ اللہعَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ نے سلام بھیجا ہے؛ اِس لیے عُلَما نے لکھا ہے کہ: جس شخص کے پاس یہ حدیث پہنچے اُس کو چاہیے کہ، حضرت خلیلُ اللہ کے سلام کے جواب میں وَعَلَیہِ السَّلَامُ وَرَحمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ کہے۔ اِس کے بعد ارشاد ہے کہ: جنت کی مٹی بہترین مٹی ہے اور پانی میٹھا، اِس کے دومطلب ہیں: اوَّل یہ کہ، صرف اُس جگہ کی حالت کابیان کرنا ہے کہ بہترین جگہ ہے، جس کی مٹی کے مُتعلِّق احادیث میں آیا ہے کہ: مُشک وزعفران کی ہے اور پانی نہایت لَذیذ۔(مسند احمد،۲؍۴۴۵، حدیث:۸۰۴۳) ایسی جگہ ہر شخص اپنا مَسکَن بنانا چاہتا ہے، اور تفریح وراحت کے لیے باغ وغیرہ لگانے کے اَسباب مُہَیَّا ہوں تو کون چھوڑ سکتا ہے؟۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ، جس جگہ زمین بہتر اور پانی بہتر ہو وہاں پیداوار بہت اچھی ہوتی ہے، اِس صورت میں مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ کہہ دینے سے ایک درخت وہاں قائم ہوجاوے گا، اور پھر وہ جگہ اور پانی کی عُمدگی کی وجہ سے خود ہی نَشو ونُما پاتا رہے گا، صرف ایک مرتبہ بیج ڈال دینا ہے، باقی سب کچھ خود ہی ہوجائے گا۔ اِس حدیث میں جنت کو چَٹیل میدان فرمایا ہے، اور جن احادیث میں جنت کا حال بیان کیا گیا ہے اُن میںجنت میں ہر قِسم کے میوے، باغ، درختوں وغیرہ کا موجود ہونا بتایاگیا ہے؛ بلکہ جنت کے معنیٰ ہی باغ کے ہیں؛ اِس لیے بہ ظاہر اِشکال واقع ہوتا ہے، بعض عُلَما نے فرمایا ہے کہ: اصل کے اِعتِبار سے وہ میدان ہے؛ لیکن جس حالت پر وہ نیک عمل لوگوں کو دی جائے گی اُن کے اَعمال کے موافق اُس میں باغ اور درخت وغیرہ موجود ہوںگے۔ دوسری توجِیہ بعض عُلَمانے یہ فرمائی ہے کہ: جنت کے وہ باغ وغیرہ اُن اَعمال کے موافق ملیںگے، جب اُن اعمال کی وجہ سے اور اُن کے برابر ملے تو گویا یہ اعمال ہی درختوں کا سبب ہوئے۔ تیسری توجِیہ یہ فرمائی گئی ہے کہ: کم سے کم مقدار جو ہر شخص کے حصے میں ہے وہ ساری دنیا سے کہیں زائد ہے، اِس میں بہت سے حصے میں