فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں، روٹی ہے، گوشت ہے، ہر قِسم کی کَچی اور پکی کھجوریں ہیں؛ یہ فرماکر نبیٔ اکرم ﷺکی پاک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اور ارشاد فرمایا: اُس پاک ذات کی قَسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یہی وہ نعمتیں ہیں جن سے قِیامت میں سوال ہوگا،(جن حالات کے تحت میں اِس وقت یہ چیزیں مُیسَّر ہوئی تھیں اُن کے لِحاظ سے) صحابہ ث کو بڑی گِرانی اور فکر پیدا ہوگیا، (کہ ایسی مجبوری اور اِضطِرار کی حالت میں یہ چیزیں مُیسَّر آئیں، اور اُن پر بھی سوال وحساب ہو!)حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ کا شکر ادا کرنا تو ضروری ہے ہی، جب اِس قِسم کی چیزوں پر ہاتھ ڈالو تو اوَّل بِسْمِ اللہِ پڑھو، اور جب کھاچکو تو کہو: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ ہُوَ أَشْبَعَنَا وَأَنعَمَ عَلَینَا وَأَفضَلَ: (تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہم کو پیٹ بھر کر کھلایا اور ہم پر اِنعام فرمایا، اور بہت زیادہ عطا کیا)،اِس دعا کا پڑھنا شکر ادا کرنے میں کافی ہے۔(مسند ابن حبان، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث:۵۲۱۶) اِس قِسم کے واقعات کئی مرتبہ پیش آئے جو مُتعدِّد احادیث میں مختلف عنوانات سے ذکر کیے گئے ہیں۔ نوبت: موقع۔ کوڑھی: سفید داغ کا مریض۔ پیشی: حاضری۔حائل: آڑ۔ اَنبار: ڈھیڑ۔ دَفع: دُور۔ چناںچہ ایک مرتبہ اَبوالہَیثَم مالک ابن تَیِّہان صکے مکان پر تشریف لے جانے کی نوبت آئی۔ (کشف الاستار،۴؍۲۶۳،۲۶۵) اِسی قِسم کا ایک واقعہ ایک اَور صاحب کے ساتھ پیش آیا جن کو واقِفی کہاجاتا تھا۔ (دُرِّمنثور۔۔۔۔۔) حضرت عمرص کا گزر ایک شخص پر ہوا جو کوڑھی بھی تھا اور اندھا، بہرا ، گونگا بھی تھا، آپ نے ساتھیوںسے دریافت فرمایا کہ: تم لوگ اللہ کی کچھ نعمتیں اِس شخص پر بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا: اِس کے پاس کونسی نعمت ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: کیا پیشاب سَہولت سے نہیں کرسکتا؟۔(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔) حضرت عبداللہ بن مسعود ا فرماتے ہیں کہ: قِیامت میں تین دربار ہیں: ایک دربار میں نیکیوں کا حساب ہے، دوسرے میں اللہ کی نعمتوں کا حساب ہے، تیسرے میں گناہوں کا مُطالَبہ ہے؛ نیکیاں نعمتوں کے مُقابلے میں ہوجائیںگی، اور بُرائیاں باقی رہ جائیںگی جو اللہ کے فضل کے تحت میں ہوںگی۔(مسند ابن ابی شیبہ،۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۳۵۶۸۸) اِن سب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی جس قدر نعمتیں ہر آن اور ہر دم آدمی پر ہوتی ہیں اُن کا شکر کرنا، اُن کا حق ادا کرنابھی آدمی کے ذِمے ہے؛ اِس لیے جتنی مقدار بھی نیکیوں کی پیدا ہوسکے اُن کو حاصل کرنے میں کمی نہ کرے، اور کسی مقدار کوبھی زیادہ نہ سمجھے، کہ وہاں پہنچ کر معلوم ہوگا کتنے کتنے گناہ ہم نے اپنی آنکھ، ناک، کان اور دوسرے بدن کے حِصَّوں سے ایسے کیے ہیں جن کو ہم گناہ بھی نہ سمجھے!۔