فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
حکومت کے ذَلیل ہوتا ہے۔ (۳۹)ذکر پَراگَندہ کو مُجتَمع کرتا ہے اور مُجتمع کو پَراگَندہ کرتا ہے، دُور کو قریب کرتا ہے اور قریب کو دُور کرتا ہے۔ پَراگندہ کو مُجتمَع کرنے کامطلب یہ ہے کہ: آدمی کے دل پر جو مُتفرِّق ہُموم، غُمُوم، تَفکُّرات، پریشانیاں ہوتی ہیں اُن کودُور کرکے جَمعیَّتِ خاطِر پیدا کرتا ہے، اور مُجتمع کو پَراگَندہ کرنے کامطلب یہ ہے کہ: آدمی پر جو تفکُّرات مجتمع ہیں اُن کو مُتفرِّق کردیتا ہے، اور آدمی کی جولَغزشیں اور گناہ جمع ہوگئے ہیں اُن کوپَراگَندہ کردیتا ہے، اور جو شیطان کے لشکر آدمی پر مُسلَّط ہیں اُن کو پَراگَندہ کردیتا ہے، اور آخرت کو جو دُور ہے قریب کر دیتا ہے، اوردنیا کو جو قریب ہے دُور کردیتا ہے۔ (۴۰)ذکر آدمی کے دل کو نیند سے جگاتا ہے، غفلت سے چوکنَّا کرتا ہے، اور دل جب تک سوتا رہتا ہے اپنے سارے ہی مَنافِع کھوتا رہتا ہے۔ (۴۱)ذکر ایک درخت ہے جس پر مَعارِف کے پھل لگتے ہیں، صوفیا کی اِصطِلاح میں اَحوال اور مَقامات کے پھل لگتے ہیں، اور جتنی بھی ذکر کی کثرت ہوگی اُتنی ہی اُس درخت کی جڑ مضبوط ہوگی، اور جتنی جڑ مضبوط ہوگی اُتنے ہی زیادہ پھل اُس پرآئیںگے۔ (۴۲)ذکر اُس پاک ذات کے قریب کردیتا ہے جس کا ذکر کر رہا ہے، حتیٰ کہ اُس کے ساتھ مَعِیَّت نصیب ہوجاتی ہے؛ چناںچہ قرآن پاک میں ہے: ﴿إِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا﴾ (اللہجَلَّ شَانُہٗمُتَّقیوں کے ساتھ ہے)۔ اور حدیث میں وارد ہے: أَنَا مَعَ عَبدِيْ مَا ذَکَرَنِي: (بخاری، تعلیقاً۱۳؍ ۴۳ ۔۔ ۔ ۔ ) (مَیں اپنے بندے کے ساتھ رہتا ہوں جب تک وہ میرا ذکر کرتا رہے)۔ حَبِیب: دوست۔ طَبیب: ڈاکٹر۔ مُعزَّز: عزت والا۔ مُنتَہا: انجام،پھل۔ مُداوَمَت: ہمیشگی۔ سَبقَت لے جاتے: غالب آجانا۔ بار: بوجھ۔ خِفَّت: ہلکا پن۔زَائل: ختم۔ہِراس: گھبراہٹ۔ آڑ: رُکاوَٹ۔ مُحاصَرہ: گھیراؤ۔ تَفاضُل: بڑھا ہوا ہونا۔ ایک حدیث میں ہے کہ: میرا ذکر کرنے والے میرے آدمی ہیں، مَیں اُن کو اپنی رحمت سے دُور نہیں کرتا ،اگروہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں تو مَیں اُن کا حَبِیب ہوں، اور اگر وہ توبہ نہ کریں تو مَیں اُن کا طَبیب ہوں کہ اُن کو پریشانیوں میں مُبتَلا کرتا ہوں؛ تاکہ اُن کو گناہوں سے پاک کروں۔ (۔۔۔۔۔۔۔) نیز ذکر کی وجہ سے جو اللہجَلَّ شَانُہٗ کی مَعِیَّت نصیب ہوتی ہے وہ ایسی مَعِیَّت ہے جس کی برابر کوئی دوسری مَعِیَّت نہیں ہے، نہ وہ زبان سے تعبیر ہوسکتی ہے نہ تحریر میں آسکتی ہے، اُس کی لَذَّت وہی جان سکتا ہے جس کو یہ نصیب ہوجاتی ہے۔ اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِيْ مِنہُ شَیْئاً. (۴۳) ذکر غلاموں کے آزاد کرنے کے برابر ہے، مالوں کے خرچ کرنے کے برابر ہے، اللہ کے راستے میں جہاد کی برابر ہے۔ بہت سی روایات میں اِس قِسم کے مَضامین گزر بھی چکے ہیں اور آئندہ بھی آنے والے ہیں۔ (۴۴)ذکر، شکر کی جڑ ہے، جو اللہ کا ذکر نہیں کرتا وہ شکر بھی ادا نہیں کرتا۔