فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں۔ وَحشت: دُوری۔ بدگوئی: بُری بات کہنا۔ لَغو گوئی: فُضُول بات کہنا۔ نوع: قِسم۔ بِلبِلا: تڑپنا۔ سَہَل ترین: سب سے آسان۔ دَوامِ ذکر: ہمیشہ ذکرکرنا ۔ شَقاوَت: بدبختی۔ مَصالِح: مصلَحتیں۔ خَبر گِیری: دیکھ بھال۔ لامَحالہ: یقینا۔ شَب بیداروں: رات بھر جاگنے والا۔ (۱۶)دل کو زندہ کرتا ہے، حافظ ابنِ تَیمِیہؒ کہتے ہیں کہ: اللہ کا ذکر دل کے لیے ایسا ہے جیسا مچھلی کے لیے پانی، خود غور کرلو کہ بغیرپانی کے مچھلی کا کیا حال ہوتا ہے؟۔ (۱۷)دل اور رُوح کی روزی ہے، اگر اِن دونوں کو اپنی روزی نہ ملے تو ایسا ہے جیسا کہ بدن کو اُس کی روزی (یعنی کھانا)نہ ملے۔ (۱۸)دل کو زَنگ سے صاف کرتا ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی وَارِد ہوا ہے، ہرچیز پر اُس کے مُناسِب زَنگ اور مَیل کُچیل ہوتا ہے، دل کا مَیل اور زَنگ خواہشات اور غفلت ہیں، یہ اُس کے لیے صفائی کا کام دیتاہے۔ (۱۹) لَغزشوں اورخَطاؤں کو دُور کرتا ہے۔ (۲۰)بندے کو اللہ جَلَّ شَانُہٗسے جو وَحشت ہوتی ہے اُس کو دُور کرتا ہے، کہ غافل کے دل پر اللہ کی طرف سے ایک وَحشت رہتی ہے جوذکر ہی سے دُور ہوتی ہے۔ (۲۱)جو اَذکار بندہ کرتا ہے وہ عرش کے چاروں طرف بندے کا ذکر کرتے رہتے ہیںجیسا کہ حدیث میںوارد ہے: (باب نمبر ۳؍ فصل نمبر۲؍ حدیث نمبر۱۷)۔ (۲۲) جو شخص راحت میں اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا ذکر کرتا ہے اللہ دمصیبت کے وقت اُس کو یاد کرتا ہے۔ (۲۳)اللہ کے عذاب سے نجات کاذریعہ ہے۔ (۲۴) سَکِینہ اور رحمت کے اُترنے کا سبب ہے، اور فرشتے ذِکر کرنے والے کو گھیر لیتے ہیں۔ (سکینہ کے معنیٰ بابِ ہٰذا کی فصل نمبر ۲؍ حدیث نمبر ۸؍ میں گزر چکے ہیں)۔ (۲۵)اِس کی برکت سے زبان غِیبت، چُغل خوری، جھوٹ، بدگوئی، لَغو گوئی سے محفوظ رہتی ہے؛ چناںچہ تجربے اور مُشاہَدے سے ثابت ہے کہ جس شخص کی زبان اللہ کے ذکر کی عادی ہوجاتی ہے وہ اِن اشیاء سے عُمُوماً محفوظ رہتا ہے، اور جس کی زبان عادی نہیں ہوتی ہر نوع کی لَغوِیات میں مُبتَلا رہتاہے۔ (۲۶)ذکر کی مَجلِسیں، فرشتوں کی مجلسیں ہیں، اور لَغویات اور غفلت کی مَجلسیں شیطان کی مجلسیں ہیں، اب آدمی کو اِختیار ہے جس قِسم کی مجلسوں کو چاہے پسند کرلے، اور ہر شخص اُسی کو پسند کرتا ہے جس سے مُناسَبت رکھتا ہے۔ (۲۷)ذکر کی وجہ سے ذکر کرنے والا بھی سَعید (نیک بخت) ہوتا ہے اور اُس کے پاس بیٹھنے والا بھی، اور غفلت یا لَغویات میںمُبتَلا ہونے والا خود بھی بدبخت ہوتا ہے اور اُس کے پاس بیٹھنے والا بھی۔ (۲۸) قِیامت کے دن حَسرت سے محفوظ رکھتا ہے؛ اِس لیے کہ حدیث میں آیا ہے کہ: ہر وہ مجلس جس میں اللہ کا ذکر نہ ہو قِیامت کے دن حسرت اور نقصان کا سبب ہے۔ (۲۹)ذکر کے ساتھ اگر تنہائی کا رونا بھی نصیب ہوجائے تو قِیامت کے دن کی تَپِش اور گرمی میں -جب کہ ہر شخص میدانِ حشر میں بِلبِلا رہا ہوگا- یہ عرش کے سایے میں ہوگا۔ (۳۰)ذکر میں مشغول رہنے والوں کو اُن سب چیزوں سے زیادہ ملتا ہے جو