فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اِس صورت میں وہ چیزیں مراد ہوںگی جو اللہ کے ذکر میں مُعِین ومددگار ہوں، جن میں کھانا پینا بھی بہ قدرِ ضرورت داخل ہے، اور زندگی کے اسبابِ ضروریہ بھی اِس میں داخل ہیں، اور اِس صورت میں اللہ کا ذکر ہر چیز کو جو عبادت کی قَبِیل سے ہو، شامل ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُس کے قریب ہونے سے اللہ کا قُرب مراد ہو، تو اِس صورت میں ساری عبادتیں اُس میں داخل ہوںگی اور ’’اللہ کے ذکر‘‘ سے مخصوص ذکرمراد ہوگا، اور دونوں صورتوں میں علم اُن میںخود داخل ہوگیا تھا، پہلی صورت میں اِس وجہ سے کہ علم ہی اللہ کے ذکر کے قریب لے جاتا ہے، کہ ’’بے علم نَتُواں خدا رَا شَناخت‘‘ (بغیر علم کے اللہ کوپہچان نہیں سکتا)، اور دوسری صورت میں اِس وجہ سے کہ، علم سے بڑھ کر کون سی عبادت ہوگی! لیکن اِس کے باوجود پھر عالم اور طالب علم کو علاحدہ اِہتمام کی وجہ سے فرمایا، کہ علم بہت ہی بڑی دولت ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: علم کا صرف اللہ کے لیے سیکھنا اللہ کے خوف کے حکم میں ہے، اور اُس کی طَلَب (یعنی تلاش کے لیے کہیں جانا)عبادت ہے، اور اُس کا یاد کرناتسبیح ہے، اور اُس کی تَحقِیقات میں بَحث کرنا جِہاد ہے، اور اُس کا پڑھنا صدقہ ہے، اور اُس کا اَہل پر خرچ کرنا اللہ کے یہاں قُربت ہے؛ اِس لیے کہ علم جائز ناجائز کے پہچاننے کے لیے علامت ہے، اور جنت کے راستوں کانشان ہے، وَحشت میں جی بَہلانے والا ہے، اور سفر کاساتھی ہے (کہ کتاب کا دیکھنا دونوں کام دیتا ہے، اِسی طرح) تنہائی میں ایک مُحدِّث ہے، خوشی اور رنج میں دلیل ہے، دشمنوں پر ہتھیار ہے دوستوں کے لیے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗاِس کی وجہ سے ایک جماعت (عُلَما)کو بلند مرتبہ کرتا ہے، کہ وہ خَیر کی طرف بُلانے والے ہوتے ہیں، اور ایسے امام ہوتے ہیں کہ اُن کے نشانِ قدم پر چلا جائے، اور اُن کے اَفعال کا اِتِّباع کیا جائے، اُن کی رائے کی طرف رُجوع کیاجائے، فرشتے اُن سے دوستی کرنے کی رَغبت کرتے ہیں، اپنے پَروں کو (برکت حاصل کرنے کے لیے یا محبت کے طور پر) اُن پر مَلتے ہیں، اور ہر تَر اور خُشک چیز دنیا کی اُن کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرتی ہے، حتیٰ کہ سمندر کی مچھلیاں اورجنگل کے درندے اور چوپائے اور زہریلے جانور (سانپ وغیرہ) تک بھی دُعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں، اور یہ سب اِس لیے کہ علم دلوں کی روشنی ہے، آنکھوں کا نور ہے، علم کی وجہ سے بندہ اُمَّت کے بہترین اَفراد تک پہنچ جاتا ہے، دنیا اور آخرت کے بلند مرتبوں کو حاصل کرلیتا ہے، اُس کامُطالَعہ روزوںکے برابر ہے، اُس کا یاد کرنا تہجُّد کے برابر ہے، اُسی سے رِشتے جوڑے جاتے ہیں، اور اُسی سے حلال وحرام کی پہچان ہوتی ہے، وہ عمل کا اِمام ہے، اور عمل اُس کا تابع ہے، سَعِید لوگوں کو اُس کا اِلہام کیا جاتا ہے اور بدبخت اُس سے محروم رہتے ہیں۔(حلیۃ الاولیاء۱؍۲۳۹) اِس حدیث پر مجموعی طور سے بعض نے کلام کیا ہے؛ لیکن جس قِسم کے