فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
یانہیں؟۔ تَر: بھیگ۔ مَبہُوت: بے ہوش۔ ہَیبَت: ڈر۔ مُیسَّر: حاصل۔ مَردُود: رَد ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ص جب اذان کی آواز سنتے تواِس قدر روتے کہ چادر تَر ہوجاتی، رَگیں پھول جاتِیں، آنکھیں سُرخ ہوجاتِیں، کسی نے عرض کیاکہ: ہم تو اذان سنتے ہیں؛ مگر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، آپ اِس قدرگھبراتے ہیں؟ ارشادفرمایا کہ: ’’اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ مُؤذِّن کیاکہتا ہے؟ توراحت وآرام سے محروم ہوجائیں اور نیند اُڑ جائے‘‘، اِس کے بعد اذان کے ہر ہرجملے کی تنبیہ کو مُفصَّل ذکر فرمایا۔ ایک شخص نقل کرتے ہیں کہ: مَیں نے حضرت ذُوالنُّون مِصریؒ کے پیچھے عصر کی نماز پڑھی، جب اُنھوں نے ’’اللہ أَکبر‘‘ کہا تو لفظِ’’اَللہ‘‘ کے وقت اُن پر جلالِ الٰہی کا ایسا غلبہ تھا گویا اُن کے بدن میں روح نہیں رہی، بالکل مَبہُوت سے ہوگئے، اور جب ’’أَکْبَرْ‘‘ زبان سے کہا تو میرادل اُن کی اِس تکبیر کی ہَیبَت سے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ (نُزہَۃُ البَساتین، ص:۲۶۷) حضرت اویس قرنیؒ-مشہور بزرگ اور اَفضل ترین تابعی ہیں- بعض مرتبہ رکوع کرتے اور تمام رات اِسی حالت میں گزار دیتے، کبھی سجدے میں یہی حالت ہوتی، کہ تمام رات ایک ہی سجدے میں گزار دیتے۔ (نُزہَۃُ البَساتین، ص:۱۹۷) عِصامؒ نے حضرت حاتم زاہد بَلخیؒ سے پوچھا کہ: آپ نمازکس طرح پڑھتے ہیں؟ فرمایا کہ: جب نمازکاوقت آتا ہے، اوَّل نہایت اطمینان سے اچھی طرح وُضوکرتاہوں، پھر اُس جگہ پہنچتا ہوں جہاں نمازپڑھنا ہے، اور اوَّل نہایت اطمینان سے کھڑاہوتاہوں، کہ گویاکعبہ میرے منھ کے سامنے ہے، اور میرا پاؤں پُل صِراط پر ہے، دا ہنی طرف جنت ہے، بائیں طرف دوزخ ہے، موت کافرشتہ میرے سر پر ہے، اور مَیں یہ سمجھتاہوں کہ یہ میری آخری نماز ہے، پھر کوئی اَور نماز شاید مُیسَّر نہ ہو، اور میرے دل کی حالت کو اللہ ہی جانتاہے، اِس کے بعد نہایت عاجزی کے ساتھ ’’اَللہ أَکبَر‘‘ کہتا ہوں، پھرمعنیٰ کوسوچ کرقرآن پڑھتاہوں، تواضع کے ساتھ رُکوع کرتا ہوں، عاجزی کے ساتھ سجدہ کرتا ہوں، اور اطمینان سے نماز پوری کرتاہوں، اِس طرح کہ اللہ کی رحمت سے اُس کے قَبول ہونے کی اُمید رکھتاہوں، اور اپنے اعمال سے مَردُود ہوجانے کاخوف کرتا ہوں۔ عِصامؒ نے پوچھا کہ: کتنی مدت سے آپ ایسی نماز پڑھتے ہیں؟ حاتمؒنے کہا: تیس برس سے، عِصام ؒ رونے لگے، کہ مجھے ایک بھی نمازایسی نصیب نہ ہوئی۔ کہتے ہیں کہ: حاتمؒ کی ایک مرتبہ جماعت فوت ہوگئی جس کابے حد اثر تھا، ایک دوملنے والوں نے تعزیت کی، اِس پر رونے لگے اورفرمایا کہ: اگر میرا ایک بیٹا مرجاتا تو آدھا بَلخ تعزیت کرتا-ایک روایت میں آیاہے کہ: دس ہزار آدمیوںسے زیادہ تعزیت کرتے-، جماعت کے فوت ہونے پر ایک دوآدمیوں نے تعزیت کی، یہ صرف اِس