فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اللہجَلَّ شَانُہٗ کے یہاں سے کوئی عِتاب نازل ہوا ہو،نئے اور پُرانے خَیالات نے مجھے گھیر لیا، پُرانی پُرانی باتیں سوچتا تھا، کہ شاید فلاں بات پر حضورﷺ ناراض ہوگئے ہوں، شاید فلانی بات ہوگئی ہو، جب حضورﷺنے سلام پھیر لیا توارشاد فرمایا کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے اَحکام میں جوچاہتے ہیں تبدیلی فرماتے ہیں،حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے نماز میں بولنے کی مُمانَعت فرمادی، اوریہ آیت تلاوت فرمائی، اورپھر ارشادفرمایا کہ: نماز میں اللہ کے ذکر، اُس کی تسبیح، اُس کی حَمدوثَنا کے سِوا بات کرنا جائز نہیں۔(۔۔۔۔۔۔۔۔) مُعاوِیہ بن حَکَم سُلَمِی صکہتے ہیں کہ: جب مَیں مدینۂ طیبہ مسلمان ہونے کے لیے حاضر ہوا تو مجھے بہت سی چیزیں سکھائی گئیں، مِن جُملہ اُن کے یہ بھی تھا کہ، جب کوئی چھینکے اور ’’اَلحَمدُ لِلّٰہ‘‘ کہے تو اُس کے جواب میں ’’یَرْحَمُكَ اللہُ‘‘ کہناچاہیے، چوں کہ نئی تعلیم تھی، اُس وقت تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ نماز میں نہ کہناچاہیے، ایک صاحب کو نماز میں چھینک آئی، مَیں نے جواب میں ’’یَرْحَمُكَ اللہُ‘‘ کہا، آس پاس کے لوگوں نے مجھے تنبیہ کے طور پر گھُورا،مجھے اُس وقت تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ نماز میں بولنا جائز نہیں؛ اِس لیے مَیں نے کہا: ہائے افسوس! تمھیں کیا ہوا کہ مجھے کڑوی کڑوی نگاہوں سے گھورتے ہو؟ مجھے اشارے سے اُن لوگوں نے چُپ کردیا، میری سمجھ میں تو آیا نہیں؛ مگر مَیں چُپ ہوگیا، جب نمازختم ہوچکی تو حضورِ اقدس ﷺ نے (میرے ماں باپ آپ پر قربان) نہ مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ بُرا بھلا کہا؛ بلکہ ارشادفرمایا کہ: نماز میں بات کرنا جائز نہیں، نمازتسبیح وتکبیر اور قراء تِ قرآن ہی کاموقع ہے، خداکی قَسم! حضور ﷺجیسا شفیق استاذ نہ مَیں نے پہلے دیکھا، نہ بعد میں۔(۔۔۔۔۔۔۔۔) دوسری تفسیر حضرت ابنِ عباس صسے منقول ہے کہ، ’’قٰنِتِیْنَ‘‘ کے معنیٰ ’’خَاشِعِینَ‘‘ کے ہیں، یعنی خشوع سے نماز پڑھنے والے، اِسی کے موافق مجاہدؒ یہ نقل کرتے ہیں جو اوپر ذکرکیاگیا کہ، یہ سب چیزیں خُشوع میں داخل ہیں، یعنی: لمبی لمبی رکعات کاہونا، اورخشوع خضوع سے پڑھنا، نگاہ کو نیچی رکھنا، اللہ تعالیٰ سے ڈرنا۔(۔۔۔۔) حضرت عبداللہ بن عباس ص فرماتے ہیں کہ: ابتدا میں حضورِ اقدس ﷺ رات کوجب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تواپنے کو رَسِّی سے باندھ لیاکرتے، کہ نیند کے غَلبے سے گِر نہ جائیں، اِس پر ﴿مَا أَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لِتَشْقیٰ﴾ [طٰہٰ] نازل ہوئی۔ (۔۔۔۔۔) اور یہ مضمون توکئی حدیثوں میں آیا ہے کہ: حضورﷺ اِتنی طویل رکعت کیاکرتے تھے کہ، کھڑے کھڑے پاؤں پر وَرَم آجاتاتھا، اگرچہ ہم لوگوں پر