فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
(أخرجہ ابن أبي حاتم وابن مردویہ، کذا في الدرالمنثور) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ سے کسی نے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کے ارشاد:﴿إِنَّ الصَّلوٰۃَتَنْهیٰ عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ﴾ (بے شک نمازروکتی ہے بے حیائی سے اور ناشائستہ حرکتوں سے) کے مُتعلِّق دریافت کیا، تو حضور ﷺنے ارشادفرمایا کہ: جس شخص کی نمازایسی نہ ہو اوراُس کوبے حیائی اور ناشائستہ حرکتوںسے نہ روکے، وہ نماز ہی نہیں۔ ناشائستہ: نازیبا۔ ثمَرہ: نتیجہ۔ فائدہ: بے شک نماز ایسی ہی بڑی دولت ہے،اور اِس کواپنی اصلی حالت پر پڑھنے کا ثمَرہ یہی ہے کہ وہ ایسی نامناسب باتوں سے روک دے، اگر یہ بات پیدا نہیں ہوئی تونماز کے کمال میں کمی ہے۔ بہت سی حدیثوں میں یہ مضمون وارد ہواہے، حضرت ابن عباس ص فرماتے ہیں کہ: نماز میں گناہوں سے روک ہے، اورگناہوں سے ہٹانا ہے۔ حضرت ابُوالعالِیۃ ص فرماتے ہیں کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کے ارشاد: ﴿إِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْهیٰ﴾ کامطلب یہ ہے کہ: نماز میں تین چیزیں ہوتی ہیں: اخلاص، اللہ کا خوف اور اللہ کاذکر؛ جس نماز میں یہ چیزیں نہیں وہ نماز ہی نہیں، اخلاص نیک کاموں کاحکم کرتا ہے، اور اللہ کاخوف بُری باتوں سے روکتا ہے، اور اللہ کاذکر قرآنِ پاک ہے، جومُستَقل طور پر اچھی باتوںکاحکم کرتاہے اوربُری باتوں سے روکتاہے۔ حضرت ابنِ عباس ص حضورِ اقدس ﷺسے نقل کرتے ہیںکہ: جو نماز بُری باتوں اورنامناسب حرکتوں سے نہ روکے وہ نمازبجائے اللہ کے قُرب کے، اللہ سے دُوری پیداکرتی ہے۔ حضرت حسن ص بھی حضورِ اقدس ﷺسے یہی نقل کرتے ہیں کہ: جس شخص کی نماز اُس کوبُری باتوں سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں، اُس نماز کی وجہ سے اللہ سے دُوری پیدا ہوتی ہے۔ حضرت ابنِ عمرصنے بھی حضورِ اقدس ﷺ سے یہی مضمون نقل فرمایا ہے۔ حضرت ابن مسعودص حضورِ اقدس ﷺ کاارشادنقل کرتے ہیں کہ: جو نماز کی اِطاعت نہ کرے اُس کی نماز ہی کیا! اور نمازکی اِطاعت یہ ہے کہ بے حیائی اور بُری باتوں سے رُکے۔ حضرت ابوہریرہ ص کہتے ہیں کہ: ایک شخص حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ: فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا رہتا ہے اورصبح ہوتے چوری کرتا ہے، حضورﷺنے فرمایا: اُس کی نماز اُس کو اِس فعل سے عنقریب ہی روک دے گی۔ (دُرِّمنثور۔۔۔۔۔)