فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
پڑگیا، آخر مَیں نے خَیال کیا کہ آخر اِس کے ختم پر تو رکوع کریںگے ہی، حضورﷺنے اِس کو ختم فرمایا اورتین مرتبہ اَللّٰہُمَّ لَكَ الْحَمْدُ پڑھا، اور سورۂ مائدہ شروع کردی، اِس کوختم کرکے رکوع کیا، اور رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْمِ پڑھتے رہے، اِس کے ساتھ کچھ اَور بھی پڑھتے رہے جو سمجھ میں نہ آیا، اِس کے بعد اِسی طرح سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلیٰ بھی پڑھتے رہے، اِس کے ساتھ کچھ اَور بھی پڑھتے تھے، اِس کے بعد دوسری رکعت میں سورۂ اَنعام شروع کردی، مَیں حضورﷺ کے ساتھ نمازپڑھنے کی ہمَّت نہ کرسکا اور مجبور ہوکر چلا آیا۔ (مصنف عبدالرزاق، حدیث: ۲۸۴۲) پہلی رکعت میں تقریباًپانچ سیپارے ہوئے، اور پھر حضورِاقدس ﷺکا پڑھنا! جو نہایت اطمینان سے تجوید وترتیل کے ساتھ ایک ایک آیت جُدا جُدا کرکے پڑھتے تھے، ایسی صورت میں کتنی لانبی رکعت ہوئی ہوگی! اِنھیں وُجوہ سے آپ کے پاؤں پر نماز پڑھتے پڑھتے وَرَم آجاتا تھا؛ مگر جس چیزکی لَذَّت دل میں اُترجاتی ہے اُس میں مَشقَّت اورتکلیف دشوار نہیں رہتی۔ ابواسحاق سُبَیحیؒ مشہور مُحدِّث ہیں، سوبرس کی عمرمیں انتقال فرمایا، اِس پر افسوس کیا کرتے تھے کہ بڑھاپے اور ضُعف کی وجہ سے نماز کا لُطف جاتا رہا،دو رکعتوں میں صرف دو سورتیں: سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران پڑھی جاتی ہیں، زیادہ نہیں پڑھا جاتا۔ (سیر اعلام النبلاء،۵:۳۹۷) یہ دوسورتیں بھی پونے چارپاروں کی ہیں۔ محمد بن سَمَّاکؒ فرماتے ہیں کہ: کوفہ میں میرا ایک پڑوسی تھا، اُس کے ایک لڑکاتھا جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھتا اور رات بھر نماز میں اور شوقیہ اَشعار میں رہتا تھا، وہ سوکھ کرایساہوگیا کہ صرف ہڈی اور چمڑا رہ گیا، اُس کے والد نے مجھ سے کہا کہ: تم اِس کو ذرا سمجھاؤ، مَیں ایک مرتبہ اپنے دروازے پر بیٹھا ہوا تھا، وہ سامنے سے گزرا، مَیں نے اُسے بلایا، وہ آیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا، مَیں نے کہنا شروع ہی کیا تھا کہ وہ کہنے لگا: چچا! شاید آپ محنت کی کمی کا مشورہ دیںگے، چچا جان! مَیں نے اِس محلے کے چند لڑکوں کے ساتھ یہ طے کیاتھا کہ: دیکھیں! کون شخص عبادت میں زیادہ کوشش کرے؟ اُنھوں نے کوشش اور محنت کی اوراللہ تعالیٰ کی طرف بُلالیے گئے،جب وہ بُلائے گئے توبڑی خوشی اور سُرور کے ساتھ گئے، اُن میں سے میرے سِوا کوئی باقی نہیں رہا، میرا عمل دن میں دو بار اُن پر ظاہرہوتا ہوگا، وہ کیا کہیںگے جب اِس میں کوتاہی پائیںگے؟ چچا جان! اُن جوانوں نے بڑے بڑے مُجاہدے کیے، اُن کی محنتیں اور مُجاہدے بیان کرنے لگا جن کو سن کر ہم لوگ مُتَحیِّر رہ گئے؛ اِس کے بعدوہ لڑکا اُٹھ کر چلا گیا، تیسرے دن ہم نے سناکہ وہ بھی رُخصت ہوگیا۔ رَحِمَہُ اللہُ رَحْمَۃً وَّاسِعَۃً۔(نزہۃ البساتین، حکایت: ۳۵۲ ص:۴۰۴)