فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
پر جس قدر لُطف وشفقت کا مِینھ برسایا، یہ ناکارہ اُس کے شکر سے بھی قاصِر ہے، ممدوح کے متعلِّق یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ آپ حضرت گنگوہیؒ کے خُلفاء میں سے ہیں، پھر آپؒ کے اوصافِ جلیلہ، یکسوئی، تقدُّس، مَظہرِ انوار وبرکات؛ وغیرہ کے ذکر کی ضرورت نہیں رہتی۔ جلسے سے فراغت پر ممدوح جب مکان واپس تشریف لے گئے تو گرامی نامہ، مَکرَمَت نامہ، عزت نامے سے مجھے اِس کا حکم فرمایا کہ: فضائلِ قرآن میں ایک چہل حدیث جمع کرکے اُس کا ترجَمہ خدمت میں پیش کروں، اور نیز یہ کہ: اگر ممدوح کے حکم سے مَیں نے اِنحراف کیا تو وہ میرے جانشینِ شیخ اور مَثِیلِ والد، چچا جان مولانا الحافظ الحاج مولوی محمد الیاس صاحبؒ سے اپنے اِس حکم کو مُؤکَّد کرائیںگے، اور بہر حال یہ خدمت ممدوح کو مجھ جیسے ناکارہ ہی سے لینا ہے۔ یہ اِفتخار نامہ اتفاقاً ایسی حالت میں پہنچا کہ مَیں سفر میں تھا، اور میرے چچا جان یہاں تشریف فرما تھے، اُنھوں نے میری واپسی پر یہ گرامی نامہ اپنے تاکیدی حکم کے ساتھ میرے حوالے فرمایا، کہ جس کے بعد نہ مجھے کسی معذِرت کی گنجائش رہی اور نہ اپنی عدمِ اہلیت کے پیش کرنے کا موقع رہا، میرے لیے شرحِ مُؤطا امام مالکؒ کی مشغولیت بھی ایک قوی عذر تھا؛ مگر ارشاداتِ عالیہ کی اہمِّیَّت کی وجہ سے اُس کو چند روز کے لیے مُلتوی کرکے ماحَضَر خدماتِ عالیہ میں پیش کرتا ہوں، اور اُن لغزشوںسے جن کا وجود میری نااہلیت کے لیے لازم ہے، مُعافی کا خواستگار ہوں۔ رَجَاءَ الْحَشْرِ فِيْ سِلْكِ مَنْ قَالَ فِیْهِمُ النَّبِيُّﷺ: ’’مَنْ حَفِظَ عَلیٰ أُمَّتِي أربَعِینَ حَدِیثاً فِي أمرِ دِینِهَا بَعَثَہُ اللہُ فَقِیهاً، وَکُنتُ لَہٗ یَومَ القِیَامَۃِ شَافِعاً وَشَهِیداً‘‘. قَالَ العَلْقَمِيُّ: اَلْحِفظُ: ضَبطُ الشَّيئِ وَمَنعُہٗ مِنَ الضِّیَاعِ، فَتَارَۃً یَکُونُ حِفظُ العِلمِ بِالقَلبِ وَإنْ لَم یَکْتُبْ، وَتَارَۃً فِيْ الکِتَابِ وَإِنْ لَمْ یَحفَظْہُ بِقَلبِہٖ، فَلَو حَفِظَ فِي کِتَابٍ ثُمَّ نَقَلَ إلَی النَّاسِ دَخَلَ فِي وَعدِ الحَدِیثِ. وَقَالَ المُنَادِيُّ: قَولُہٗ ’’مَن حَفِظَ عَلیٰ أُمَّتِي‘‘ أَيْ: نَقَلَ إلَیهِم بِطَرِیقِ التَّخرِیجِ وَالإسنَادِ، وَقِیلَ مَعنیٰ حَفِظَهَا: أَنْ یَّنقُلَهَا إلَی المُسْلِمِیْنَ وَإنْ لَّمْ یَحْفَظْهَا وَلَاعَرَفَ مَعنَاهَا؛ وَقَولُہٗ ’’أربَعِینَ حَدِیثاً‘‘ صِحَاحاً أو حِسَاناً، قِیلَ: أو ضِعَافاً یُعمَلُ بِهَا فِي الفَضَائِلِ.اھ فَلِلّٰہِ دَرُّ الإسلَامِ مَا أَیسَرَہٗ! وَلِلّٰہِ دَرُّ أَهْلِہٖ مَا أَجوَدَ مَا استَنبَطُوا! رَزَقَنِيَ اللہُ تَعَالیٰ وَإیَّاکُم کَمَالَ الإسلَامِ. وَمِمَّا لَابُدَّ مِنَ التَّنبِیہِ عَلَیہِ إنِّي اعتَمَدتُ فِي التَّخرِیجِ عَلَی المِشکاۃِ، وَتَخرِیجِہٖ، وَشَرحِہِ ’’المِرقَاۃِ‘‘ وَ’’شَرحِ الأَحیَاءِ‘‘ لِلسَّیِّد مُحمَّدِن المُرْتَضیٰ، وَالتَّرغِیبِ لِلمُنذِرِي، وَمَا عَزوتُ إلَیهَا لِکَثرَۃِ الأخذِ عَنهَا، وَمَا أخَذتُ عَن غَیرِهَا عَزَوتُہٗ إلیٰ مَاخِذِہِ. وَیَنبَغِي لِلقَارِي مُرَاعَاۃُ اٰدَابِ التِّلَاوَۃِ عِندَ القِرَاءَ ۃِ. ترجَمہ:اُس جماعت کے ساتھ حَشر ہونے کی اُمید میں جن کے بارے میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص میری اُمَّت کے لیے اُن کے دِینی اُمور میں چالیس حدیثیں محفوظ کرے گا، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کو قِیامت میںعالِم اُٹھائے گا، اورمَیں اُس کے لیے سِفارِشی اور گواہ بنوںگا۔ عَلقَمیؒ کہتے ہیں کہ: ’’محفوظ کرنا شیٔ کے مُنضَبِط کرنے اور ضائع ہونے سے حفاظت کا نام ہے، چاہے بغیر لکھے بَرزبان یاد کرلے، یا لکھ کر محفوظ کرلے اگرچہ یاد نہ ہو؛ پس اگر کوئی شخص کتاب میں لکھ کر دوسروں تک پہنچادے وہ بھی حدیث کی بشارت میں داخل ہوگا‘‘۔ مُنادِی