فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کردیا، اور جس کا ظُہور تمام عالَم کے لیے رحمت ہے، اور آپ ﷺکی اولاد واصحاب پر، جو ہدایت کے ستارے ہیں، اور کلامِ پاک کے پھیلانے والے؛ نیز اُن مؤمنین پر بھی جو ایمان کے ساتھ اُن کے پیچھے لگنے والے ہیں۔ حمد وصلاۃ کے بعد! اللہ کی رحمت کا محتاج بندہ: زکریا بن یحییٰ بن اسماعیل عرض کرتا ہے کہ: یہ جلدی میںلکھے ہوئے چند اوراق ’’فضائلِ قرآن‘‘ میں ایک چہل حدیث ہے، جس کو مَیں نے ایسے حضرات کے اِمتِثالِ حکم میں جمع کیا ہے جن کا اِشارہ بھی حکم ہے، اور اُن کی اِطاعت ہر طرح مُغتَنم ہے۔ کَجی: ٹیڑھاپن۔ حُجَّت: دلیل۔ اِمتِثالِ حکم: حکم کو پورا کرنا۔ مُغتَنم: فائدہ مند۔ سَعی: کوشش۔ تشریف آوری: تشریف لانا۔ شُموسِ ہدایت: ہدایت کے سورج۔ مُجتمَع: اِکٹھا۔ بُدورِ ہدایت: ہدایت کے چاند۔ حُضَّارِ: حاضرین۔ شاہدِ عدل:سچے گواہ۔ بے بصر: نہ دیکھنے والے۔ شُسْتہ: سَلِیس اور صاف۔ مَسرور: خوش۔ کامْگار: خوش نصیب۔ قدم رَنجہ: تشریف۔ مَکرَمَت: عزت۔ اِنحراف: انکار۔ مَثِیلِ والد: والد جیسے۔ مُؤکَّد: پختہ۔ اِفتخار نامہ: عزت نامہ۔ عدمِ اہلیت: صلاحیت کانہ ہونا۔ مُلتوی: موقوف۔ماحَضَر: جو کچھ حاضرہوا۔ خواستگار: طلب کرنے والا۔ حق سُبْحَانَہٗ وَتَقَدُّسکے اُن انعاماتِ خاصّہ میں سے جو مدرسہ عالیہ مظاہرِ علوم سہارن پور کے ساتھ ہمیشہ مخصوص رہے ہیں، مدرسے کا سالانہ جلسہ ہے، جو ہر سال مدرسے کے اِجمالی حالات سنانے کے لیے مُنعَقِد ہوتا ہے۔ مدرسے کے اِس جلسے میں مُقرِّرین، واعظین اور مشاہیرِ اہلِ ہند کے جمع کرنے کا اِس قدر اہتمام نہیں کیا جاتا جتنا کہ اللہ والے، قلوب والے، گُمنامی میں رہنے والے مشائخ کے اجتماع کی سَعی کی جاتی ہے، وہ زمانہ اگرچہ کچھ دور ہوگیا ہے جب کہ حُجّۃ الاسلام حضرت مولانا محمدقاسم صاحب نانوتوی قَدَّسَ اللہُ سِرَّہُ العَزِیز اور قُطبُ الارشادحضرتِ اقدس مولانا رشید احمد صاحب گنگوہینَوَّرَ اللہُ مَرقَدَہٗ کی تشریف آوری حاضرینِ جلسہ کے قلوب کو مُنوَّر فرمایا کرتی تھی؛ مگر وہ منظر ابھی آنکھوں سے زیادہ دور نہیں ہوا جب کہ اِن مُجدِّدینِ اسلام اور شُموسِ ہدایت کے جانشین: حضرت شیخ الہندؒ، حضرت شاہ عبدالرحیم صاحبؒ، حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ وحضرت مولانا اشرف علی صاحبنَوَّرَ اللہُ مَرقَدَہٗمدرسے کے سالانہ جلسے میں مُجتمَع ہوکر مُردہ قلوب کے لیے زندگی ونورانیت کے لیے چشمے جاری فرمایا کرتے تھے، اور عشق کے پیاسوں کو سَیراب فرماتے تھے۔ دورِحاضر میں مدرسے کاجلسہ اِن بُدورِ ہدایت سے بھی گو محروم ہوگیا؛ مگراُن کے جانشین حُضَّارِ جلسہ کو اب بھی اپنے فیوض وبرکات سے مالا مال فرماتے ہیں، جو لوگ اِمسال جلسے میں شریک رہے ہیںوہ اِس کے لیے شاہدِ عدل ہیں، آنکھوں والے برکات دیکھتے ہیں؛ لیکن ہم سے بے بصر بھی اِتنا ضرورمحسوس کرتے ہیں کہ کوئی بات ضرورہے۔ مدرسے کے سالانہ جلسے میں اگر کوئی شخص شُسْتہ تقاریر، زور دار لیکچروں کا طالب بن کر آئے تو شاید وہ اِتنا مَسرور نہ جائے جس قدر کہ دوائے دل کا طالب کامْگار وفیضیاب جائے گا۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ. اِسی سلسلے میں سالِ رواں ۲۷؍ ذی قعدہ ۱۳۴۸ھ کے جلسے میں حضرت الشاہ حافظ محمد یٰسین صاحب نگینویؒ نے قدم رَنجہ فرماکر اِس سیہ کار