فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کہتے ہیں کہ: میری اُمَّت پر محفوظ کرلینے سے مراد اُن کی طرف نقل کرنا ہے سند کے حوالے کے ساتھ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ: مسلمانوں تک پہنچانا ہے اگرچہ برزبان یاد نہ ہوں، نہ اُن کے معنیٰ معلوم ہوں، اِسی طرح چالیس حدیثیں بھی عام ہیں کہ سب صحیح ہوں، یا حَسَن، یامعمولی درجے کا ضُعف، جن پر فضائل میں عمل جائز ہو۔ اللہ أَکبر! اسلام میں بھی کیا کیا سہولتیں ہیں! اور تعجب کی بات ہے کہ عُلما نے بھی کس قدر باریکیاں نکالی ہیں! حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کمالِ اسلام مجھے بھی نصیب فرماویں اور تمھیں بھی۔ اِس جگہ ایک ضروری امر پر مُتنبَّہ کرنا بھی لاَبُدِّی ہے، وہ یہ کہ مَیں نے احادیث کا حوالہ دینے میں مشکوۃ، تنقیح الرُّواۃ، مرقاۃ، اور اِحیاء العلوم کی شرح اور مُنذِری کی ’’ترغیب‘‘ پر اعتماد کیا ہے، اور کثرت سے اِن سے لیا ہے؛ اِس لیے اِن کے حوالے کی ضرورت نہیں سمجھی؛ البتہ اِن کے عِلاوہ کہیں سے لیا ہے تو اُس کا حوالہ نقل کردیا۔ نیز قاری کے لیے تلاوت کے وقت اُس کے آداب کی رعایت بھی ضروری ہے۔ مُنضَبِط: لکھا ہوا۔ لاَبُدِّی: ضروری۔ بے ادب محروم گشت از فضلِ رب: بے ادب اللہ کے فضل سے محروم رہتا ہے۔ فرمُودہ: فرمائے گئے۔ وَقعَت: اہمِّیَّت۔ شیفتگی: عشق۔فریفتگی: چاہت۔غیرمُتَناہی: ختم نہ ہونے والے۔ موجِزن ہوگی: جوش مارے گی۔ اَحکمُ الحاکمین: بادشاہوں کے بادشاہ۔ سَطوَت: رعب، دبدبہ۔جبروت: عظمت۔ ہَمسَری: برابری۔ سابِقہ: واسطہ۔ ہَیبت: ڈر۔ اِجمال: خلاصہ۔ ناظِرین: پڑھنے والے۔مُحسِن: احسان کرنے والا۔ مُنعِم: انعام کرنے والا۔ قاصِر: نااہل۔عُجب: تکبُّر۔یکسُوئی: تنہائی۔ رُو بہ قبلہ: قبلے کی طرف رُخ کرکے۔تدبُّر وتفکُّر: غور وفکر۔چارہ ساز: کام بنانے والا۔تنزِیہ وتقدِیس: خدا کی پاکی۔ سَعی: کوشش۔ گِلہ: شِکوہ۔ رِیا: دِکھلاوا۔ خوش اِلحانی: اچھی آواز سے۔ عُلُوِّ شان: شان کی بلندی۔کِبریائی:بَڑائی۔ سُرورِ محض: مکمل خوشی۔ ضَلالت: گمراہی۔ آوازہ: شور۔ حَماقَت: بے وُقوفی۔دماغ سوزی: دماغی محنت۔ تضییِعِ اوقات: اوقات کوضائع کرنا۔ مقصود سے قَبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ، کلامِ مجید پڑھنے کے کچھ آداب بھی لکھ دیے جائیں، کہ ع بے ادب محروم گشت از فضلِ رب مختصر طور پر آداب کا خلاصہ یہ ہے کہ، کلامُ اللہ شریف معبود کا کلام ہے، محبوب ومطلوب کے فرمُودہ الفاظ ہیں، جن لوگوں کو محبت سے کچھ واسطہ پڑا ہے وہ جانتے ہیں کہ، معشوق کے خط کی، محبوب کی تقریر وتحریر کی کسی دِل کھوئے ہوئے کے یہاں کیا وَقعَت ہوتی ہے؟ اُس کے ساتھ جو شیفتگی وفریفتگی کامعاملہ ہونا چاہیے اور ہوتا ہے، وہ قواعد وضوابِط سے بالاتر ہے۔ ع محبت تجھ کو آدابِ محبت خود سِکھا دے گی اُس وقت اگر جمالِ حقیقی اور انعاماتِ غیرمُتَناہی کا تصوُّر ہوتو محبت موجِزن ہوگی۔ اِس کے ساتھ ہی وہ اَحکمُ الحاکمین کا کلام ہے، سلطانُ السَّلاطین کا فرمان ہے، اُس سَطوَت وجبروت والے بادشاہ کا قانون ہے کہ جس کی ہَمسَری نہ کسی بڑے سے بڑے سے ہوئی، اور نہ ہوسکتی ہے، جن لوگوں کو سَلاطِین کے دربار سے کچھ واسطہ پڑچکا ہے وہ تجربے سے، اور جن کو سابِقہ نہیں پڑا وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ، سلطانی فرمان کی ہَیبت قُلُوب پر کیا ہوسکتی ہے؟ کلامِ الٰہی محبوب وحاکم کا کلام ہے؛ اِس لیے دونوں آداب کا مجموعہ اِس کے ساتھ بَرتنا ضروری ہے۔ حضرت عِکرمہ صجب کلامِ پاک پڑھنے کے لیے کھولا کرتے تھے تو بے