فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تھیں، امام ترمذیؒ نے فوراً سنا دِیں۔ خودامام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں نے مکۂ مکرمہ کے راستے میں ایک شیخ کی احادیث کے دوجُزو نقل کیے تھے، اِتِّفاق سے خود اُن شیخ سے ملاقات ہوگئی، مَیں نے درخواست کی کہ: وہ دونوں جُزو احادیث کے استاذ سے سن بھی لوں، اُنھوں نے قَبول کر لیا، مَیں سمجھ رہا تھا کہ وہ جُزو میرے پاس ہیں؛ مگر استاذ کی خدمت میں گیاتو بجائے اُن کے دو سادے جُزو ہاتھ میں تھے، اُستاذ نے سناناشروع کیا، اِتِّفاقاً اُن کی نظر پڑی تومیرے ہاتھ میں دو سادے جُزو تھے، ناراض ہوکر فرمایا: تمھیں شرم نہیں آتی؟ مَیں نے قِصَّہ بیان کیا اور عرض کیا کہ: آپ جو سناتے ہیں وہ مجھے یاد ہوجاتا ہے، اُستاذ کویقین نہ آیا، فرمایا: اچھا! سناؤ، مَیں نے سب حدیثیں سُنا دِیں، فرمایا کہ: یہ تم کو پہلے سے یاد ہوںگی، مَیں نے عرض کیا: اَور نئی حدیثیں سنا دیجیے، اُنھوں نے چالیس حدیثیں اَور سنا دِیں، مَیںنے اُن کوبھی فوراً سنا دیا اور ایک بھی غلَطی نہیں کی۔ مُحدِّثین نے جو جو محنتیں حدیث کے یاد کرنے میں، اُن کوپھیلانے میں کی ہیں اُن کا اِتِّباع تو دَرکِنار، اُن کاشمارکرنابھی مشکل ہے۔ قِرطِمہؒ ایک مُحدِّث ہیں، زیادہ مشہور بھی نہیں ہیں، اُن کے ایک شاگرد داؤدؒ کہتے ہیں کہ: لوگ ابوحاتم ؒوغیرہ کے حافظے کاذکر کرتے ہیں، مَیں نے قِرطِمہؒ سے زیادہ حافظ نہیں دیکھا، ایک مرتبہ مَیں اُن کے پاس گیا، کہنے لگے کہ: اِن کُتب میں سے جونسی دل چاہے اُٹھا لو، مَیں سنا دُوںگا، مَیں نے ’’کِتَابُ الأَشْرِبَہ‘‘ اٹھائی، وہ ہرباب کے اخیر سے اوَّل کی طرف پڑھتے گئے اورپوری کتاب سنادی۔ ابوزَرعہؒ کہتے ہیں کہ: امام احمدبن حنبلؒ کو دس لاکھ حدیثیں یاد تھیں۔ اِسحاق بن رَاہْوَیہؒ کہتے ہیں کہ: ایک لاکھ حدیثیں مَیں نے جمع کی ہیں اور تیس ہزار مجھے اَزبر یاد ہیں۔خَفَّافؒ کہتے ہیں کہ: اسحاقؒ نے گیارہ ہزار حدیثیں اپنی یاد سے ہمیں لکھوائیں، اور پھر اُن کو نمبر وار سنایا، نہ کوئی حرف کم ہوا نہ زیادہ۔ ابوسعد اَصبَہانیؒ بغدادی سولہ سال کی عمر میں ابونَصرؒ کی احادیث سننے کے لیے بغداد پہنچے، راستے میں اُن کے انتقال کی خبر سنی، بے ساختہ رو پڑے، چیخیں نکل گئیں، کہ اُن کی سند کہاںملے گی؟۔ اِتنا رنج کہ رونے میں چیخیں نکل جائیں، جب ہی ہوسکتا ہے جب کسی چیز کا عشق ہوجائے۔ اِن کو ’’مسلم شریف‘‘ پوری حِفظ یاد تھی، اور حِفظ ہی طلباء کولکھوایاکرتے تھے، گیارہ حج کیے، جب کھانے بیٹھتے توآنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ ابوعمر ضَریرؒ پیدائشی نابیناتھے؛ مگرحُفَّاظِ حدیث میں شمار ہے۔ علمِ فقہ، تاریخ، فرائض، حساب میں کامل مَہارت رکھتے تھے۔ ابوالحُسین اَصفہانی ؒ کو ’’بخاری شریف‘‘ اور’’مُسلم شریف‘‘ دونوں یاد تھیں، بِالخُصوص ’’بخاری شریف‘‘ کا تو یہ حال تھا کہ جو کوئی سند پڑھتا اُس کا مَتن