فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ایک توضروری ہے: یاشہادت یاغلبہ‘‘۔ یہ سن کرمسلمانوں نے ہمت کی اورآگے بڑھ گئے، حتی کہ ’’مُوتہ‘‘ پرپہنچ کرلڑائی شروع ہوگئی، حضرت زیدص نے جھنڈاہاتھ میں لیا اور میدان میں پہنچے، گھُمسان کی لڑائی شروع ہوئی،شُرحبِیل کا بھائی بھی مارا گیا اور اُس کے ساتھی بھاگ گئے، خود شُرحبِیل بھی بھاگ کر ایک قلعے میں چھپ گیا اور ہِرقل کے پاس مددکے لیے ایک آدمی بھیجا، اُس نے تقریباً دو لاکھ فوج بھیجی، اور لڑائی زورسے ہوتی رہی، حضرت زیدص شہید ہوئے توحضرت جعفرصنے جھنڈا لیا، اور اپنے گھوڑے کے خود ہی پاؤں کاٹ دیے؛ تاکہ واپسی کاخَیال بھی دل میںنہ آئے، اور چند اَشعار پڑھے جن کا ترجَمہ یہ ہے: ’’اے لوگو!کیاہی اچھی ہے جنت، اور کیا ہی اچھا ہے اُس کاقریب ہونا! کتنی بہترین چیزہے اور کتنا ٹھنڈا ہے اُس کاپانی! اور مُلکِ رُوم کے لوگوں پرعذاب کاوقت آگیا، مجھ پربھی لازم ہے کہ اُن کو ماروں‘‘،یہ اَشعارپڑھے اوراپنے گھوڑے کے پاؤں خود ہی کاٹ چکے تھے کہ واپسی کاخَیال بھی دل میں نہ آوے، اور تلوار لے کرکافروں کے مجمع میں گھس گئے، امیرہونے کی وجہ سے جھنڈا بھی اُن ہی کے پاس تھا، اوَّل جھنڈا دائیں ہاتھ میں لیا، کافروں نے دایاں ہاتھ کاٹ دیا کہ جھنڈا گرجائے، اُنھوں نے فوراً بائیں ہاتھ میں لیا، اُنھوں نے وہ بھی کاٹا تو اُنھوں نے دونوں بازوؤں سے اُس کو تھاما اور منھ سے مضبوط پکڑ لیا، ایک شخص نے پیچھے سے اُن کے دو ٹکڑے کردیے جس سے یہ گرپڑے، اُس وقت اِن کی عمرتینتیس (۳۳)سال کی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمرص کہتے ہیں کہ:ہم نے بعدمیں نعشوں میں سے حضرت جعفرصکوجب اُٹھایا تو اُن کے بدن کے اگلے حصے میں نوّے (۹۰)زخم تھے، جب یہ شہید ہوگئے تولوگوں نے عبداللہ بن رَواحہ ص کوآواز دی، وہ لشکر کے ایک کونے میں گوشت کا ٹکڑا کھا رہے تھے کہ تین دن سے کچھ چکھنے کوبھی نہ ملاتھا، وہ آواز سنتے ہی گوشت کے ٹکڑے کو پھینک کر اپنے آپ کوملامت کرتے ہوئے -کہ جعفر صتوشہید ہوجائیں اور تُو دنیا میں مشغول رہے- آگے بڑھے، اور جھنڈا لے کر قِتال شروع کر دیا، انگلی میں زخم آیاوہ لٹک گئی، تو اُنھوں نے پاؤں سے اُس کٹی ہوئی اُنگلی کو دباکر ہاتھ کھینچا، وہ الگ ہوگئی، اُس کو پھینک دیا اور آگے بڑھے، اِس گھُمسان اور پریشانی کی حالت میں تھوڑا سا تردُّد بھی پیش آیا کہ: نہ ہمت نہ مقابلے کی طاقت؛ لیکن اِس تردُّد کو تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اپنے دل کومخاطب بناکر کہا: ’’او دل! کس چیز کا اب اِشتیاق باقی ہے جس کی وجہ سے تردُّد ہے؟ کیا بیوی کا ہے؟ تو اُس کو تین طلاق، یا غلاموں کاہے؟ تووہ سب آزاد، یاباغ کا ہے؟ تووہ اللہ کے راستے میں صدقہ‘‘؛ اِس کے بعد چندشعر پڑھے جن کاترجَمہ یہ ہے: ’’قَسم ہے اودل! تجھے اُترنا ہوگا، خوشی سے اُتر یا ناگواری سے اُتر، تجھے اطمینان کی زندگی گزارتے ہوئے ایک زمانہ گزر