فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہوجائے گی؛ اور یہ سب کچھ اِس لیے ہوگا کہ اُس نے اپنے فرضِ مَنصَبی کو نہیں پہچانا، اورجس کام کی اَنجام دَہی کی ذمّہ دار تھی اُس سے غافل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ نبیٔ کریم ﷺنے اَمربِالمَعروف ونَہِی عَنِ المُنکَرکو ایمان کا خاصّہ اور اُس کے چھوڑنے کو ایمان کے ضُعف واِضمِحلَال کی علامت بتلایا۔ حدیثِ ابو سعید خدری ص میں ہے: مَنْ رَأیٰ مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ، فَإنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ، فَإنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ؛ وَذٰلِكَ أَضْعَفُ الإِیْمَانِ. یعنی: تم میں سے جب کوئی شخص بُرائی کو دیکھے توچاہیے کہ اپنے ہاتھوں سے کام لے کر اُس کو دُور کرے، اور اگر اُس کی طاقت نہ پائے تو زبان سے، اور اگر اُس کی بھی طاقت نہ پائے تو دِل سے؛ اوریہ آخری صورت ایمان کی بڑی کمزوری کا درجہ ہے۔ پس جس طرح آخری درجہ اَضعفِ ایمان کا ہوا اِسی طرح پہلا درجہ کمالِ دعوت اور کمالِ اِیمان کا ہوا۔ تربیت یافتہ: تربیت دیے گئے۔ بِعَینہٖ: جیسا تھا ویسا ہی۔دَور: زمانہ۔ثُبات: مضبوطی۔ حَتیّٰ کہ: یہاں تک کہ۔خدا نہ خواستہ: اللہ نہ کرے۔بالائے طاق رکھ دیا: بھُلادیا۔تَرک: چھوڑ۔خاصّہ: خاصیت۔ مُضمَحِل: کمزور۔ اَفسُردَہ: مرجھایا ہوا۔شاہ ر َاہیں: راستے۔عالَم گِیر: دنیا میں پھیلا ہوا۔ پھُوٹ: اختلاف۔بالا وبرتر: بلند۔ پیشی: حاضری۔باز پُرس: پوچھ تاچھ۔ سرسبز: ہرے بھرے۔نیست ونابُود: ختم۔ تَحقِیر وتَذلِیل: حقیر وذلیل سمجھنا۔بے باک: بے خوف۔کم یاب: کم ملنے والا۔ مَعدُوم: ختم۔ گَوارا: پسند۔اِزالے: ختم کرنے۔ سَعی: کوشش۔ اِحیاء: زندہ کرنے۔ نُمایاں: ظاہر۔ شاہدِعَدل: سچے گواہ۔ نِگَہبَان: نِگران۔ رَعِیَّت: ماتحت۔ اِس سے بھی واضح تر حدیث ابن مسعودص کی ہے: مَامِنْ نَبِيٍّ بَعَثَہُ اللہُ قَبْلِي إلَّا کَانَ لَہٗ فِي أُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَأصْحَابٌ یَّأخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدِرُوْنَ بِأمْرِہٖ، ثُمَّ أنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوْفٌ یَقُوْلُوْنَ مَا لَایَفْعَلُوْنَ، وَیَفْعَلُوْنَ مَا لَایُؤْمَرُوْنَ، فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ؛ وَلَیْسَ وَرَاءَ ذٰلِكَ مِنَ الإیْمَانِ حَبَّۃَ خَرْدَلٍ.(مسلم) یعنی: سنّتِ اِلٰہی یہ ہے کہ ہر نبی اپنے ساتھیوں اور تربیت یافتہ یاروں کی ایک جماعت چھوڑ جاتا ہے، یہ جماعت نبی کی سنت کو قائم رکھتی ہے، اور ٹھیک ٹھیک اُس کی پیروی کرتی ہے، یعنی شریعتِ اِلٰہی کو جس حال اور جس شکل میںنبی چھوڑگیا ہے اُس کو بِعَینہٖ محفوظ رکھتے ہیں، اور اُس میں ذرا بھی فرق نہیں آنے دیتے؛ لیکن اِس کے بعد شَروفِتَن کا دَورآتا ہے، اور ایسے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں جو طریقۂ نبی سے ہٹ جاتے ہیں، اُن کا فعل اُن کے دعوے کے خلاف ہوتا ہے، اور اُن کے کام ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے شریعت نے حکم نہیں دیا، سو ایسے لوگوں کے خلاف جس شخص نے قیامِ حق وسُنَّت کی راہ میں اپنے ہاتھ سے کا م لیا وہ مومن ہے، اور جو ایسا نہ کرسکا؛ مگر زبان سے کا م لیا وہ بھی مومن ہے، اور جس سے یہ بھی نہ ہوسکا اور دل کے اعتقاد اور نیت کے ثُبات کو اُن کے خلاف کا م میں لایا وہ بھی مومن ہے؛ لیکن اِس آخری درجے کے بعد ایمان کا کوئی درجہ نہیں، اُس پر ایمان کی سرحَد ختم ہوجاتی ہے، حَتیّٰ کہ اب رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ہوسکتا۔