فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں، اگر نئے ٹائم پِیس کی لمبائی میںکوئی شخص اپنا چہرہ دیکھے تو اِتنا لمبا نظر آئے گا کہ حد نہیں، اور اگر اُسی کی چوڑائی میں اپنا چہرہ دیکھے تو ایسا چوڑا نظر آئے گا کہ خود دیکھنے والے کو اپنے چہرے پر ہنسی آجائے گی، اِسی طرح سے اگر خواب میں حضورِاقدس ﷺ کا کوئی ارشاد شریعتِ مُطہَّرہ کے خلاف سُنے تووہ محتاجِ تعبیر ہے، شریعت کے خلاف اُس پر عمل کرنا جائز نہیں، چاہے کتنے ہی بڑے شیخ اور مُقتدیٰ کا خواب ہو، مثلاً: کوئی شخص دیکھے کہ حضورِاقدس ﷺ نے کسی ناجائز کام کے کرنے کی اجازت یا حکم دیا، تو وہ درحقیقت حکم نہیں؛ بلکہ ڈانٹ ہے، جیساکوئی شخص اپنی اولاد کو کسی بُرے کام کو روکے، اور وہ مانتا نہ ہوتو اُس کو تنبیہ کے طورپر کہا جاتا ہے کہ: ’’کر، اَور کر‘‘ یعنی اِس کا مزہ چکھاؤںگا۔ اور اِسی طرح سے کلام کے مطلب کا سمجھنا جس کو ’’تعبیر‘‘ کہاجاتاہے، یہ بھی ایک دَقیق فن ہے۔ ’’تعطیرُ الاَنام فی تعبیرِ المَنام‘‘ میں لکھا ہے: ایک شخص نے خواب میں یہ دیکھا کہ، اُس سے ایک فرشتے نے یہ کہا کہ: تیری بیوی تیرے فلاں دوست کے ذریعے تجھے زہر پلانا چاہتی ہے، ایک صاحب نے اُس کی تعبیر یہ دی، اور وہ صحیح تھی کہ: تیری بیوی اُس فلاں سے زِنا کرتی ہے۔ اِسی طرح اَور بہت سے واقعات اِس قِسم کے فنِ تعبیر کی کتابوں میں لکھے ہیں۔ سنتِ قویمہ: ثابت سنت۔ عرض: پیش۔بہ سببِ خللِ سامِعہ: کان میں نقصان کے سبب سے۔ تفاوُت: فرق۔ رَفع: دُور۔ اِستِفتاء: سوال۔ ’’مظاہر حق‘‘ میں لکھاہے کہ: امام نوویؒ نے کہا ہے کہ: صحیح یہی ہے کہ جس نے حضورﷺ کو خواب میں دیکھا اُس نے آںحضرت ﷺ ہی کو دیکھا، خواہ آپ ﷺ کی صفتِ معروفہ پر دیکھا ہویا اِس کے عِلاوہ۔ اور اختلاف اور تفاوُت صورتوں کا بہ اعتبار کمال ونقصان دیکھنے والے کے ہے، جس نے حضرت ﷺ کو اچھی صورت میں دیکھا بہ سبب کمالِ دِین اپنے کے دیکھا، اور جس نے برخلاف اِس کے دیکھا بہ سبب نقصان اپنے دِین کے دیکھا، اِسی طرح ایک نے بڈّھا دیکھا ایک نے جوان، اور ایک نے راضی اور ایک نے خَفا؛ یہ تمام مبنی ہے اوپر اختلافِ حال دیکھنے والے کے، پس دیکھنا آںحضرت ﷺ کا گویا کسوٹی ہے معرفتِ احوال دیکھنے والے کے، اور اِس میں ضابطۂ مفیدہ ہے سالِکوں کے لیے، کہ اِس سے اَحوال اپنے باطن کا معلوم کرکے علاج اُس کا کریں، اور اِسی قیاس پر بعض اَربابِ تمکین نے کہا ہے کہ: جو کلام آںحضرت ﷺ سے خواب میں سنے تو اُس کو سنتِ قویمہ پر عرض کرے، اگر موافق ہے تو حق ہے، اور اگر مخالف ہے تو بہ سببِ خللِ سامِعہ اُس کی کے ہے، پس رُؤیائے ذاتِ کریمہ اور اُس چیزکا کہ دیکھی یا سُنی جاتی ہے، حق ہے، اور جوتفاوُت اوراختلاف سے ہے تجھ سے ہے۔