فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
بغیرکسی کام پر مَوقُوف کرنے کے یوں ہی کہہ دے کہ: ’’مَیں نے اِتنے دِنوں کا اِعتکاف اپنے اوپر لازم کرلیا‘‘، یہ واجب ہوتا ہے، اور جتنے دِنوں کی نیت کی ہے اُس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ دوسری قِسم سُنَّت ہے، جو رمَضانُ المبارک کے اخیر عشرے کا ہے، کہ نبیٔ کریم ﷺ کی عادتِ شریفہ اِن اَیَّام کے اِعتکاف فرمانے کی تھی۔ تیسرا اِعتکاف نفل ہے، جس کے لیے نہ کوئی وَقت، نہ اَیَّام کی مِقدار، جتنے دِن کا جی چاہے کرلے، حتیٰ کہ اگر کوئی شخص تمام عمر کے اِعتکاف کی نیت کرلے تب بھی جائز ہے؛ البتہ کمی میں اختلاف ہے، کہ امام صاحبؒ کے نزدیک ایک دن سے کم کاجائز نہیں؛ لیکن امام محمدؒ کے نزدیک تھوڑی دیر کابھی جائز ہے، اور اِسی پر فتویٰ ہے؛ اِس لیے ہر شخص کے لیے مناسب ہے کہ جب مسجد میں داخل ہو اِعتکاف کی نیت کرلیا کرے، کہ اِتنے نماز وغیرہ میں مشغول رہے اِعتکاف کا ثواب بھی رہے۔ مَیں نے اپنے والد صاحب -نَوَّرَاللہُ مَرْقَدَہٗ وَبَرَّدَ مَضْجَعَہٗ- کو ہمیشہ اِس کا اہتمام کرتے دیکھا، کہ جب مسجد میں تشریف لے جاتے تو دایاں پاؤں اندر داخل کرتے ہی اِعتکاف کی نیت فرماتے تھے، اوربَسااوقات خُدّام کی تعلیم کی غرض سے آواز سے بھی نِیت فرماتے تھے۔ اِعتکاف کا بہت زیادہ ثواب ہے، اور اِس کی فضیلت اِس سے زیادہ کیا ہوگی کہ نبیٔ کریم ﷺ ہمیشہ اِس کا اہتمام فرماتے تھے! مُعتکِف کی مثال اُس شخص کی سی ہے کہ کسی کے دَر پر جا پڑے، کہ اِتنے میری درخواست قبول نہ ہو ٹَلنے کانہیں: نکل جائے دَم تیرے قدموں کے نیچے ء یہی دِل کی حسرت یہی آرزو ہے اگر حقیقتاً یہی حال ہوتو سخت سے سخت دِل والا بھی پسیجتا ہے، اوراللہ جَلَّ شَانُہٗ کی کریم ذات تو بخشش کے لیے بہانہ ڈھونڈتی ہے؛بلکہ بے بہانہ مَرحَمت فرماتے ہیں: تُو وہ داتا ہے کہ دینے کے لیے ء دَر تیری رحمت کے ہیں ہر دَم کھُلے خدا کی دَین کا موسیٰ سے پوچھیے اَحوال ء کہ آگ لینے کو جائیں پَیمبری مِل جائے اِس لیے جب کوئی شخص اللہ کے دروازے پر دُنیاسے مُنقَطِع ہوکر جاپڑے تو اُس کے نوازے جانے میں کیا تَا ٔمُّل ہوسکتا ہے؟ اور اللہجَلَّ شَانُہٗ جس کو اِکرام فرماویں اُس کے بھرپور خزانوں کا بیان کون کرسکتا ہے؟ اِس کے آگے کہنے سے قاصِر