فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کریں جس کے گھمنڈ میں صُلح کے لیے جھکنے کی توفیق نہیںہوتی۔ فصلِ اوَّل میں روزے کے آداب میں گزر چکا ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے مسلمانوں کی آبروریزی کو بَدترین سُود اور خَبیث ترین سود ارشاد فرمایا ہے؛ لیکن ہم لوگ لڑائی کے زور میں نہ مسلمان کی آبرو کی پرواہ کرتے ہیں نہ اللہ اور اُس کے سچے رسول ﷺکے اِرشادات کا خَیال، خود اللہ د کا ارشاد ہے: ﴿وَلَاتَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ﴾: اور نِزاع مت کرو، ورنہ کم ہِمَّت ہوجاؤ گے اور تمھاری ہَوا اُکھڑ جائے گی۔ (بیانُ القرآن) آج وہ لوگ جو ہر وقت دوسروںکا وَقار گھٹانے کی فکر میں رہتے ہیں تنہائی میں بیٹھ کر غور کریں کہ، خود وہ اپنے وَقار کو کتنا صدمہ پہنچا رہے ہیں! اور اپنی اِن ناپاک اورکمینہ حرکتوں سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کتنے ذَلیل ہورہے ہیں! اور پھر دُنیا کی ذِلَّت بدیہی، نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ چھوٹ چھُٹاؤ رکھے، اگر اِس حالت میں مرگیا تو سیدھا جہنَّم میں جاوے گا، ایک حدیث میں اِرشاد ہے کہ: ہر پیروجمعرات کے دن اللہ کی حُضوری میں بندوںکے اعمال پیش ہوتے ہیں، اللہجَلَّ شَانُہٗ کی رَحمت سے (نیک اَعمال کی بہ دولت) مُشرکوں کے عِلاوہ اَوروں کی مغفرت ہوتی رہتی ہے؛ مگر جن دو میں جھگڑا ہوتا ہے اُن کی مغفرت کے متعلِّق ارشاد ہوتا ہے کہ: اِن کو چھوڑے رکھو جب تک صلح نہ ہو۔ ایک حدیثِ پاک میں ارشاد ہے کہ: ہر پیر جمعرات کو اعمال کی پَیشی ہوتی ہے اُس میں توبہ کرنے والوں کی توبہ قَبول ہوتی ہے، اور اِستِغفار کرنے والوں کی اِستغفار قَبول کی جاتی ہے؛ مگر آپس میں لڑنے والوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیاجاتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ: شبِ براء ت میں اللہ کی رَحمتِ عامّہ خَلقَت کی طرف مُتوجَّہ ہوتی ہے، اور (ذرا ذرا سے بہانے سے) مخلوق کی مغفرت فرمائی جاتی ہے؛ مگر دوشخصوں کی مغفرت نہیں ہوتی: ایک کافر، دوسرا: وہ جو کسی سے کِینہ رکھے۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ: تین شخص ہیں جن کی نماز قَبولیت کے لیے اُن کے سَر سے ایک بالِشت بھی اُوپر نہیں جاتی، جن میں آپس کے لڑنے والے بھی فرمائے ہیں۔یہ جگہ اُن رِوایات کے اِحاطے کی نہیں؛ مگر چند رِوایات اِس لیے لکھ دی ہیں کہ ہم لوگوں میں عوام کا ذِکر نہیں، خَواص میں اور اُن لوگوں میں جو شُرَفا کہلاتے ہیں، دِین دار سمجھے جاتے ہیں، اُن کی مَجالِس، اُن کے مَجامِع، اُن کی تقریرات اِس کمینہ حرکت سے لَبریز ہیں۔ فَإلَی اللہِ الْمُشْتَکیٰ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ. لیکن اِن سب کے بعد یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ، یہ سب دنیوی دُشمنی اور عَداوَت پر ہے، اگرکسی شخص کے فِسق کی وجہ سے یا کسی دِینی اَمر کی حِمایت کی وجہ سے ترکِ تعلُّق کرے تو جائز ہے۔ حضرت ابنِ عمرص نے ایک مرتبہ حضورﷺ کا ارشاد نقل فرمایا، تو اُن کے بیٹے نے اُس پر ایسا لفظ