فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
چشمے سے سکندر کوپیاسا واپس لے آئے۔ رمَضانُ المبارک کی راتوں میں سے ایک رات ’’شبِ قدر‘‘ کہلاتی ہے جو بہت ہی برکت اور خیر کی رات ہے، کلامِ پاک میں اِس کو ہزار مہینوں سے افضل بتلایا ہے، ہزار مہینے کے تِراسِی برس چار ماہ ہوتے ہیں۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو اِس رات کی عبادت نصیب ہوجائے، کہ جو شخص اِس ایک رات کو عبادت میں گزار دے اُس نے گویا تِراسِی برس چار ماہ سے زیادہ زمانے کو عبادت میں گزار دیا، اور اِس زیادتی کا بھی حال معلوم نہیںکہ ہزار مہینے سے کتنے ماہ زیادہ افضل ہے۔ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا حقیقتاً بہت ہی بڑا اِنعام ہے، کہ قدر دَانوں کے لیے یہ ایک بے نہایت نعمت مَرحَمت فرمائی۔ ’’دُرِّ مَنثور‘‘ میں حضرت انس ص سے حضورﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ: شبِ قدر حق تَعَالیٰ جَلَّ شَانُہٗ نے میری اُمَّت کو مَرحَمَت فرمائی ہے، پہلی اُمَّتوں کو نہیں ملی۔ اِس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ اِس انعام کا سبب کیا ہوا؟ بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے پہلی اُمَّتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت بہت ہوئی ہیں، اور آپ کی اُمَّت کی عمریں بہت تھوڑی ہیں،اگر وہ نیک اعمال میںاُن کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن، اِس سے اللہ کے لاڈلے نبی کو رَنج ہوا، اِس کی تَلافِی میں یہ رات مَرحَمت ہوئی کہ اگر کسی خوش نصیب کو دَس راتیں بھی نصیب ہوجائیں اور اُن کو عبادت میں گزار دے، تو گویا آٹھ سو تینتیس(۸۳۳) برس چار ماہ سے بھی زیادہ زمانہ کامِل عبادت میں گزار دیا۔ بعض رِوایات سے معلوم ہوتا ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺنے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ: ایک ہزار مہینے تک اللہ کے راستے میں جہاد کرتارہا، صحابہث کو اِس پر رَشک آیا، تو اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ وَعَمَّ نَوَالُہنے اِس کی تَلافِی کے لیے اِس رات کا نزول فرمایا۔ ایک روایت میں ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کے چار حضرات کا ذکر فرمایا: حضرت ایوب ں، حضرت زکریاں،حضرت حِزقِیل ں، حضرت یوشَع ں؛ کہ اَسّی اَسّی برس تک اللہ کی عبادت میں مشغول رہے، اور پَل جھپکنے کے برابر بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی، اِس پر صحابۂ کرام ث کوحیرت ہوئی، تو حضرت جبرئیلں حاضرِ خدمت ہوئے اور سورۃُ القَدر سنائی۔ اِس کے عِلاوہ اَور بھی روایات ہیں۔ اِس قِسم کے اختلافِ روایات کی اکثر وجہ یہ ہوتی ہے کہ، ایک ہی زمانے میں جب مختلف واقعات کے بعد کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو ہر واقِعے کی طرف نسبت ہوسکتی ہے۔ بہر حال سببِ نزول جو کچھ بھی ہوا ہو؛ لیکن اُمَّتِ محمدیہ کے لیے یہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا بہت ہی بڑا انعام ہے، یہ رات بھی اللہ ہی کا عَطِیَّہ ہے اور اِس میں عمل بھی اُسی کی توفیق سے مُیسَّر ہوتا ہے؛ ورنہ: