فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کو اپنے ساتھ سحر کھلانے کے لیے بُلاتے تو ارشاد فرماتے کہ: آؤ! برکت کا کھانا کھالو۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: سحری کھاکر روزے پر قوَّت حاصل کرو، اور دوپہر کو سوکر اخیر شب کے اُٹھنے پر مدد چاہاکرو۔حضرت عبداللہ بن حارثص ایک صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ: مَیںحضور ﷺکی خدمت میںایسے وَقت حاضر ہوا کہ آپ ﷺ سحری نوش فرما رہے تھے، آپ ﷺنے فرمایا کہ: یہ ایک برکت کی چیز ہے جو اللہ نے تم کو عطافرمائی ہے، اِس کو مت چھوڑنا۔ حضورﷺ نے مُتعدِّد روایات میں سُحور کی ترغیب فرمائی ہے، حتیّٰ کہ ارشاد ہے کہ: ’’اَور کچھ نہ ہو تو ایک چھُوہارہ ہی کھالے، یا ایک گھونٹ پانی ہی پی لے‘‘؛ اِس لیے روزے داروں کو اِس ’’ہَم خُرما وہَم ثواب‘‘ کا خاص طور سے اہتمام کرنا چاہیے، کہ اپنی راحت، اپنا نفع، اور مُفت کا ثواب؛ مگر اِتنا ضروری ہے کہ اِفراط وتَفرِیط ہرچیز میں مُضِرہے؛ اِس لیے نہ اِتنا کم کھاوے کہ عبادات میں ضُعف محسوس ہونے لگے، اور نہ اِتنا زیادہ کھاوے کہ دن بھر کھٹی ڈَکاریں آتی رہیں، خود اِن احادیث میں بھی اِس طرف اِشارہ ہے کہ: چاہے ایک چھُوہارہ ہو یا ایک گھونٹ پانی؛ نیز مُستقِل اَحادیث میں بھی بہت کھانے کی مُمانَعت آئی ہے، حافظ ابنِ حجرؒ بخاری کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں کہ: سحری کی برکات مُختلِف وُجوہ سے ہیں: اِتِّباعِ سنَّت، اہلِ کتاب کی مُخالَفت، کہ وہ سحری نہیں کھاتے، اورہم لوگ حَتَّی الوَسَع اُن کی مُخالَفت کے مامُورہیں؛ نیز عبادت پر قوَّت، عبادت میں دِل بَستگی کی زیادتی، نیز شدَّتِ بھوک سے اکثر بدخُلقی پیدا ہوجاتی ہے اُس کی مُدافَعَت، اِس وقت کوئی ضرورت مند سائل آجائے تو اُس کی اِعانت ، کوئی پڑوس میںغریب فقیر ہو اُس کی مدد، یہ وقت خُصوصِیَّت سے قَبولِیتِ دعاکاہے، سحری کی بہ دولت دُعاکی توفیق ہوجاتی ہے، اِس وقت میں ذکر کی توفیق ہوجاتی ہے؛ وغیرہ وغیرہ۔ ابنِ دقیقُ العِیدؒ کہتے ہیں کہ: صُوفیا کو سُحور کے مسئلے میںکلام ہے کہ، وہ مقصدِ روزہ کے خلاف ہے؛ اِس لیے کہ مقصدِ روزہ پیٹ اور شرم گاہ کی شہوت کا توڑناہے، اور سحری کھانا اِس مَقصَد کے خلاف ہے؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ، مقدار میں اِتناکھانا کہ یہ مَصلَحت بِالکُلِّیہ فوت ہوجائے یہ تو بہتر نہیں، اِس کے عِلاوہ حَسبِ حیثیت وضرورت مختلف ہوتا رہتا ہے۔ بندے کے ناقص خَیال میں اِس بارے میں قولِ فَیصَل بھی یہی ہے کہ: اَصل سُحور واِفطار میں تَقلِیل ہے؛ مگر حسبِ ضرورت اِس میں تغیُّر ہوجاتا ہے، مثلاً: طَلَبا کی جماعت، کہ اُن کے لیے تقلیلِ طَعام، مَنافِعِ صوم حاصل ہونے کے ساتھ تحصیلِ علم کی مَضرَّت کو شامل ہے؛ اِس لیے اُن کے لیے بہتر یہ ہے کہ تَقلِیل نہ کریں، کہ علمِ دِین کی اَہمِّیَّت شریعت میں بہت زیادہ ہے، اِسی طرح ذاکِرین کی جماعت؛ علیٰ ہذا دوسری