فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
وہ گناہ غیر سَرکَشوں کا اثر ہوتو کچھ خَلجان نہیں؛ البتہ دوسری روایات میں سرکش کی قَید بغیر مُطلَقاً شیاطین کے مُقیَّد ہونے کا ارشاد بھی موجود ہے، پس اگر اُن روایات سے بھی سرکش شیاطِین کا ہی قَید ہونا مُراد ہے -کہ بَسا اَوقات لفظ مُطلَق بولا جاتا ہے؛ مگر دوسری جگہ سے اُس کی قُیُودات معلوم ہوجاتی ہیں- تب بھی کوئی اشکال نہیں رہا؛ البتہ اگر اُن روایات سے سب شیاطِین کا مَحبُوس ہونا مراد ہو تب بھی اِن مَعاصِی کے صادِر ہونے سے کچھ خَلجَان نہ ہونا چاہیے؛ اِس لیے کہ اگرچہ مَعاصِی عُموماً شیاطین کے اثر سے ہوتے ہیں؛ مگر سال بھر تک اُن کے تَلبُّس اور اِختلاط اور زَہریلے اثر کے جَماؤ کی وجہ سے نفس اُن کے ساتھ اِس درجہ مانُوس اور مُتا ٔثِّر ہوجاتا ہے کہ تھوڑی بہت غَیبَت محسوس نہیں ہوتی؛ بلکہ وہی خَیالات اپنی طبیعت بن جاتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ بغیر رَمَضان کے جن لوگوں سے گناہ زیادہ سَرزَد ہوتے ہیں رمَضان میںبھی اُن ہی سے زیادہ تر صُدور ہوتاہے، اور آدمی کا نفس چوںکہ ساتھ رہتاہے؛ اِسی لیے اُس کا اثر ہے۔ دوسری بات ایک اَوربھی ہے: نبیٔ کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ: جب آدمی کوئی گناہ کرتاہے تو اُس کے قَلب میں ایک کالا نُقطہ لگ جاتاہے، اگر وہ سچی توبہ کر لیتاہے تو وہ دُھل جاتاہے؛ ورنہ لگا رہتا ہے، اور اگر دوسری مرتبہ گناہ کرتاہے تو دوسرا نقطہ لگ جاتاہے، حتیّٰ کہ اُس کا قلب بالکل سِیَاہ ہوجاتا ہے، پھر خیر کی بات اُس کے قلب تک نہیں پہنچتی، اِسی کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اپنے کلامِ پاک میں ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ﴾ سے ارشاد فرمایا ہے، کہ اُن کے قلوب زَنگ آلود ہوگئے، ایسی صورت میں وہ قلوب اُن گناہوں کی طرف خود مُتوجَّہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ایک نوع کے گناہوںکو بے تکلُّف کرلیتے ہیں؛ لیکن اُسی جیسا جب کوئی دوسرا گناہ سامنے ہوتا ہے تو قلب کو اُس سے انکار ہوتاہے، مثلاً: جولوگ شراب پیتے ہیں اُن کو اگر سوَّر کھانے کو کہاجائے تو اُن کی طبیعت کو نفرت ہوتی ہے؛ حالاںکہ مَعصِیت میںدونوں برابر ہیں، تو اِسی طرح جب کہ غیرِ رمَضان میں وہ اُن گناہوں کو کرتے رہتے ہیں تو دل اُن کے ساتھ رَنگے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے رمَضانُ المبارک میںبھی اُن کے سرزد ہونے کے لیے شیاطِین کی ضرورت نہیںرہتی۔ بِالجُملہ اگر حدیثِ پاک سے سب شیاطِین کا مُقیَّد ہوجانا مراد ہے تب بھی رمَضانُ المبارک میں گناہوں کے سرزَد ہونے سے کچھ اشکال نہیں، اور اگر مُتمَرِّد اور خبیث شیاطین کا مُقیَّد ہونا مراد ہو تب تو کوئی اِشکال ہے ہی نہیں، اور بندۂ ناچیز کے نزدیک یہی توجیہ اَولیٰ ہے۔ اور ہرشخص اِس کو غور کرسکتاہے اور تجربہ کرسکتاہے، کہ رمَضانُ المبارک میںنیکی کرنے کے لیے یاکسی مَعصِیت سے بچنے کے لیے اِتنے زور نہیں لگانے پڑتے جتنے غیرِ رمَضان میں پڑتے ہیں، تھوڑی سی ہِمَّت اور توجُّہ کافی ہوجاتی ہے۔ حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحبؒ کی رائے یہ ہے کہ: یہ دونوں