فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
اَور حدیث میں وارد ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ: ایمان کیا چیز ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ: اخلاص۔ ’’ترغیب‘‘ نے مختلف روایات میں یہ مضمون ذکر کیاہے۔ نیز ایک حدیث میںوارد ہے کہ: حضرت مُعاذص کو جب نبیٔ کریم ﷺ نے یمن میں حاکم بناکر بھیجا تو اُنھوں نے درخواست کی کہ: مجھے کچھ وَصِیَّت فرمادیجیے، حضورﷺنے فرمایا کہ: دین میں اخلاص کا اہتمام رکھنا، کہ اخلاص کے ساتھ تھوڑا سا عمل بھی کافی ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اعمال میں سے صرف اُسی عمل کو قبول فرماتے ہیں جو خالص اُنھِیں کے لیے کیا گیا ہو۔ ایک اَور حدیث میں ارشاد ہے: قَالَ اللہُ تَعَالیٰ: أنَا أغنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِیْہِ مَعِيَ غَیْرِيْ تَرَكْتُہٗ وَشِرْكَہٗ‘‘، وَفِيْ رِوَایَۃٍ: ’’فَأنَا مِنْہُ بَرِیٌٔ، فَهُوَ لِلَّذِيْ عَمِلَہٗ‘‘. (مشکوۃ عن مسلم) ترجَمہ: حق سُبْحَانَہٗ وَتَقَدُّسْکا ارشاد ہے کہ: مَیں سب شُرَکا میں شِرکت سے بہت زیادہ بے نیاز ہوں، یعنی دنیا کے شُرَکا شرکت کے محتاج اور شرکت پر راضی ہوتے ہیں، اور میں خَلَّاق عَلی الاِطلاَق ہوں، بے پرواہ ہوں، عبادت میں غیر کی شرکت سے بیزار ہوں، جو شخص کوئی عمل ایسا کرے جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرلے، مَیں اُس کو اُس کے شرک کے حوالے کردیتا ہوں۔ دوسری روایت میں ہے کہ: مَیں اُس سے بَری ہوجاتا ہوں۔ ایک دوسری حدیث میں وارد ہے کہ: قِیامت کے دن میدانِ حشر میںایک مُنادِی بہ آوازِ بُلند کہے گا کہ: جس شخص نے کسی عمل میں دوسرے کو شریک کیا ہو وہ اُس کا ثواب اور بدلہ اُسی سے مانگے، اللہ تعالیٰ سب شُرَکا میں شرکت سے بہت زیادہ بے نیاز ہے۔ ایک اَور حدیث میں وارد ہے: مَنْ صَلّٰی یُرَائِي فَقَدْ أشْرَكَ، وَمَنْ صَامَ یُرَائِي فَقَدْ أشْرَكَ، وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِي فَقَدْ أشْرَكَ. (مشکوۃ عن أحمد) ترجَمہ: جوشخص رِیاکاری سے نماز پڑھتا ہے وہ مُشرک ہوجاتا ہے، اور جو شخص رِیاکاری سے روزہ رکھتا ہے وہ مُشرک ہوجاتا ہے، جو شخص رِیاکاری سے صدقہ دیتاہے وہ مُشرک ہوجاتا ہے۔ مُشرک ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ، وہ دوسرے لوگوں کو جن کے دِکھلانے کے لیے یہ اعمال کیے ہیں، اللہ تعالیٰ کا شریک بنالیتا ہے، اِس حالت میں یہ اعمال اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں رہتے ہیں؛ بلکہ اُن لوگوں کے لیے بن جاتے ہیں جن کو دِکھلانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ایک اَور حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: إنَّ أوَّلَ النَّاسِ یُقضیٰ عَلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ اُسْتُشْهِدَ، فَأُتِيَبِہٖ، فَعَرَّفَہٗ نِعْمَتَہٗ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیْهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِیكَ حَتّٰی اُسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ یُّقَالَ: جَرِیٌٔ، فَقَدْ قِیْلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِہٖ، فَسُحِبَ عَلیٰ وَجْهِہٖ حَتّٰی أُلْقِيَ فِيْ النَّارِ. وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَہٗ وَقَرَأَ الْقُرْاٰنَ، فَأُتِيَ بِہٖ، فَعَرَّفَہٗ نِعَمَہٗ، فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیْهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُہٗ وَقَرَأْتُ فِیْكَ الْقُرْاٰنَ، قَالَ: کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ: إنَّكَ عَالِمٌ، وَقَرأْتَ الْقُرْاٰنَ لِیُقَالَ: هُوَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِیْلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِہٖ، فَسُحِبَ عَلیٰ وَجْهِہٖ حَتّٰی