فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
الظَّالِمِ، وَلَتَأْطِرُنَّ عَلَی الْحَقِّ أَطَراً. (رواہ أبوداود، والترمذي؛ کذا في الترغیب) ترجَمہ:نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: بنی اسرائیل میں سب سے پہلا تَنزُّل اِس طرح شروع ہوا کہ: ایک شخص کسی دوسرے سے ملتا اور کسی ناجائز بات کو کرتے ہوئے دیکھتا تو اُس کو منع کرتا، کہ دیکھ! اللہ سے ڈر، ایسا نہ کر؛ لیکن اُس کے نہ ماننے پر بھی وہ اپنے تعلُّقات کی وجہ سے کھانے پینے میں اور نَشِست وبَرخاست میں ویسا ہی برتاؤ کرتا جیسا کہ اِس سے پہلے تھا، جب عام طور پرایسا ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے بعضوں کے قلوب کو بعضوں کے ساتھ خَلَط کردیا، (یعنی: نافرمانوں کے قلوب جیسے تھے اُن کی نحوست سے فرماں برداروں کے قلوب بھی ویسے ہی کردیے)، پھر اُن کی تائید میں کلام پاک کی آیتیں: ﴿لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ سے ﴿فَاسِقُوْنَ﴾ تک پڑھیں، اِس کے بعد حضورﷺ نے بڑی تاکید سے یہ حکم فرمایا کہ: اَمر بِالمَعروف اور نَہِی عَنِ المُنکَر کرتے رہو، ظالم کو ظلم سے روکتے رہو، اور اُس کو حق بات کی طرف کھینچ کر لاتے رہو۔ فائدہ:دوسری حدیث میں وارد ہے کہ: حضورﷺ تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے، جوش میں اُٹھ کر بیٹھ گئے اور قَسم کھاکر فرمایا کہ: تم نجات نہیں پاؤگے جب تک کہ اُن کو ظلم سے نہ روک دو۔ ایک اَور حدیث میں ہے کہ: آپ ﷺ نے قَسم کھاکر فرمایا کہ: تم اَمر بِالمَعروف اور نَہِی عن المُنکَرکرتے رہو، اور ظالموں کو ظلم سے روکتے رہو، اور حق بات کی طرف کھینچ کر لاتے رہو؛ ورنہ تمھارے قلوب بھی اِسی طرح خَلَط کردیے جائیںگے جس طرح اُن لوگوں کے کردیے گئے، اور اِسی طرح تم پر بھی لعنت ہوگی جس طرح اُن پر یعنی بنی اسرائیل پر لعنت ہوئی۔ قرآنِ پاک کی آیات تائید میں اِس لیے پڑِھیں کہ اِن آیاتِ شریفہ میں اُن لوگوں پر لعنت فرمائی ہے، اور سببِ لعنت مِن جُملہ اَور اسباب کے یہ بھی ہے کہ، وہ مُنکَرات سے ایک دوسرے کو نہیں روکتے تھے۔ آج کل یہ خوبی سمجھی جاتی ہے کہ: آدمی صُلحِ کُل رہے، جس جگہ جاوے ویسی ہی کہنے لگے، اِسی کو کمال اور وُسعتِ اخلاق سمجھا جاتا ہے؛ حالاںکہ یہ عَلی الاِطلاق غلط ہے؛ بلکہ جہاں اَمر بِالمَعروف وغیرہ قطعاً مفید نہ ہو، ممکن ہے کہ صرف سکوت کی کچھ گنجائش نکل آوے (نہ کہ ہاں میں ہاں ملانے کی)؛ لیکن جہاں مفید ہوسکتا ہے مثلاً:اپنی اولاد، اپنے ماتحت، اپنے دَست نگر لوگوں میں، وہاں کسی طرح بھی یہ سکوت کمالِ اخلاق نہیں؛ بلکہ سکوت کرنے والا شرعاً وعُرفاً خود مُجرِم ہے۔سفیان ثوریؒ کہتے ہیں کہ: جو شخص اپنے پڑوسیوں کومحبوب ہو، اپنے بھائیوں میں محمود ہو، (اَغلب یہ ہے کہ)وہ مُداہِن ہوگا۔ مُتعدَّد روایات میں یہ مضمون آیا ہے کہ: جب کوئی گناہ مَخفِی طور سے کیا جاتا ہے تو اُس کی مَضرَّت کرنے والے ہی کو ہوتی ہے؛ لیکن جب کوئی گناہ کھُلَّم کھُلّا کیا جاتا ہے، اور لوگ اُس کے روکنے پر قادر ہیں اور پھر نہیں روکتے، تو اُس کی مَضرَّت اور نقصان بھی عام ہوتا ہے۔ اب ہر شخص اپنی ہی حالت پر غور کرلے، کہ کتنے مَعاصِی اُس کے علم میںایسے کیے جاتے ہیں جن کو وہ روک