فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
فائدہ: اِس قِسم کامضمون مُتعدَّد اَحادِیث میں وَارِد ہوا ہے کہ: فرشتوں کی ایک جماعت ذکر کی مَجالس اور ذکر کرنے والی جماعتوں اور اَفراد کی تلاش میں رہتی ہے، اور جہاں مل جاتی ہے اُن کے پاس یہ جماعت بیٹھتی ہے، اُن کا ذکر سنتی ہے؛ چناںچہ پہلے باب کی حدیث ۸؍ میں یہ مضمون گزر چکا ہے، اور اُس میں یہ گذر چکا ہے کہ: فرشتوں سے تفاخُر کے طور پر اللہداِس کا ذکر کیوں فرماتے ہیں؟۔ فرشتے کا یہ عرض کرنا کہ: ’’ایک شخص مجلس میں ایسابھی تھا کہ جو اپنی ضرورت سے آیا تھا‘‘ واقعے کا اِظہار ہے، کہ اُس وقت یہ حضرات بہ منزلۂ گواہوں کے ہیں، اور اِن لوگوں کی عبادت اور ذِکرُ اللہ میں مشغولی کی گواہی دے رہے ہیں، اِسی وجہ سے اِس کے اِظہار کی ضرورت پیش آئی، کہ مَبادا اعتراض ہوجائے؛ لیکن یہ اللہ کا لُطف ہے کہ ذاکرین کی برکت سے اُن کے پاس اپنی ضرورت سے بیٹھنے والے کو بھی محروم نہ فرمایا۔ اللہجَلَّ شَانُہٗکا ارشاد ہے: ﴿یٰأَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُونُوْا مَعَ الصّٰدِقِینَ﴾ (التوبۃ،ع:۱۵) (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو)۔ صوفیا کا ارشاد ہے کہ: اللہدکے ساتھ رہو، اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو پھر اُن لوگوں کے ساتھ رہو جوکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ساتھ رہنے کا مطلب یہ ہے -جیسا کہ صحیح بخاری میں ارشادہے- حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: بندہ نوافل کے ذریعے میرے قُرب میں ترقی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ مَیں اُس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں، اور جب مَیں محبوب بنالیتا ہوں تو مَیں اُس کا کان بن جاتا ہوںجس سے وہ سُنے، اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھے، اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑے، اُس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلے، جو وہ مجھ سے مانگتا ہے مَیں اُس کو دیتا ہوں۔ (بخاری،کتاب الرقاق،باب التواضع،۲؍۹۶۲حدیث:۶۵۰۲) ہاتھ، پاؤں بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ، اُس کاہرکام اللہ کی رَضا اور محبت کے ذیل میں ہوتا ہے، اُس کا کوئی عمل بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا۔ صوفیا کے اَحوال اور اُن کے واقعات جو کثرت سے تواریخ میں موجود ہیں، وہ شاہدِ عَدل ہیں، اور وہ اِتنی کثرت سے ہیں کہ اُن کے اِنکار کی بھی گنجائش نہیں۔ ایک رسالہ اِس باب میں ’’نُزہَۃُ البَساتِین‘‘ کے نام سے مشہور ہے، جس سے اِس قِسم کے حالات کا پتہ چلتا ہے۔ شیخ ابوبکر کَتَّانیؒ کہتے ہیں کہ: ایک مرتبہ حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں چند صوفیا کا اِجتِماع تھا، جن میں سب سے کم عمر حضرت جنید بغدادیؒ تھے، اُس مجمع میں محبتِ اِلٰہی پر بحث شروع ہوئی، کہ مُحِب کون ہے؟ مختلف حضرات ارشادات فرماتے رہے، حضرت جنیدؒ چپ رہے، اُن حضرات نے اُن سے