فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
وُضِعَتْ عَلیٰ جَبَلٍ أَثْقَلَتْہُ، ثُمَّ تَجِیْیُٔ النِّعَمُ فَتَذهَبُ بِتِلكَ، ثُمَّ یَتَطَاوَلُ الرَّبُّ بَعدَ ذٰلِكَ بِرَحمَتِہٖ. (رواہ الحاکم، وقال: صحیح الإسناد، کذا في الترغیب. قلت: وأقرہ علیہ الذهبي) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ نے ارشادفرمایا کہ: جو شخصلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہے اُس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی، اور جو شخص سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ سو مرتبہ پڑھے گا اُس کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جائیںگی، صحابہ ث نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! ایسی حالت میں تو کوئی بھی (قِیامت میں)ہلاک نہیں ہوسکتا (کہ نیکیاں ہی غالب رہیںگی)،حضورﷺ نے فرمایا: (بعض لوگ پھر بھی ہلاک ہوںگے، اور کیوں نہ ہوں)بعض آدمی اِتنی نیکیاں لے کر آئیںگے کہ اگر پہاڑ پر رکھ دی جائیں تو وہ دَب جائے؛ لیکن اللہ کی نعمتوں کے مُقابلے میں وہ کَالعَدم ہوجائیںگی؛ البتہ اللہجَلَّ شَانُہٗپھر اپنی رحمت اور فضل سے دَست گیری فرمائیںگے۔ مُحاسَبہ: حساب۔ اَز سرِ نَو:نئے سِرے سے۔ مُیَسَّر: حاصل۔ مَزید بَراں: اِس کے سِوا۔ فائدہ:اللہ کی نعمتوں کے مُقابلے میں دَب جانے اور کَالعَدم ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ: قِیامت میں جہاں نیکیاں اور بُرائیاں تولی جائیںگی وہاں اِس چیز کابھی مُطالَبہ اورمُحاسَبہ ہوگا کہ :اللہ د نے جو نعمتیں عطا فرمائی تھیں اُن کا کیا حق ادا کیا؟ اور کیا شکر ادا کیا؟ بندے کے پاس ہرچیز اللہ ہی کی عطا کی ہوئی ہے، ہر چیز کا ایک حق ہے، اُس حق کی ادائیگی کا مطالبہ ہونا ہے؛ چناںچہ حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: یُصْبِحُ عَلیٰ کُلِّ سُلَامیٰ مِن أَحَدِکُم صَدَقَۃٌ، الحدیث.(في المشکوۃ بروایۃ المسلم(مسلم،کتاب الصلاۃ،باب استحباب صلاۃ الضحیٰ،۱؍۲۵۰،حدیث:۷۲۰) قلت: رواہ أبوداود وابن ماجہ) جس کا مطلب یہ ہے کہ: ہر صبح کو ہر آدمی کے ہر جوڑ اور ہڈی پر ایک صدقہ واجب ہوتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: آدمی میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں، اُس کے ذِمے ضروری ہے کہ ہر جوڑ کی طرف سے ایک صدقہ کرے۔ یعنی اِس بات کے شکر میں کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے سونے کے بعد -جو مر جانے کے مُشابِہ حالت تھی- پھر اَز سرِ نَو زندگی بخشی اور ہر عضو صحیح سالم رہا، صحابہ نے عرض کیا: اِتنے صدقے روزانہ کرنے کی طاقت کون رکھتا ہے؟ حضورﷺنے فرمایا: ہر تسبیح صدقہ ہے، ہرتکبیر صدقہ ہے، لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ ایک مرتبہ کہنا صدقہ ہے، اَللہُ أَکبَرُ کہنا صدقہ ہے، راستے سے کسی تکلیف دینے والی چیزکا ہٹادینا صدقہ ہے؛ غرض بہت سے صدقات شمار کرائے۔(مسلم،باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع علیٰ کل نوع من المعروف،۱؍۳۲۵حدیث:۱۰۰۷) اِس قِسم کی اَور بھی احادیث ہیں جن سے آدمی کی اپنی ذات میں جو اللہ کی نعمتیں ہیں اُن کا بیان ہے، اِس کے عِلاوہ کھانے، پینے، راحت وآرام کے مُتعلِّق جتنی اللہ کی نعمتیں ہر وقت مُیَسَّر ہوتی ہیں وہ مَزید بَراں۔ قرآن پاک میں سورۂ اَلهٰکُمُ التَّکَاثُرُ میں بھی اِس کا ذکر ہے، کہ قِیامت میں اللہ کی نعمتوں سے بھی سوال ہوگا۔