فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کیا: مَیں نے تو ایسا نہیں کیا، حضرت عمر ص نے فرمایا: ایسا ہی ہوا، مَیں نے عرض کیا:مجھے تو آپ کے آنے کی بھی خبر نہیں ہوئی کہ: کب آئے؟ نہ سلام کا پتہ چلا، حضرت ابوبکرصنے فرمایا: سچ ہے، ایسا ہی ہوگا، غالباً تم کسی سوچ میں بیٹھے ہوںگے، مَیں نے عرض کیا: واقعی مَیں ایک گہری سوچ میں تھا، حضرت ابوبکرصنے دریافت فرمایا: کیا تھا؟ مَیں نے عرض کیا: حضورﷺ کا وِصال ہوگیا اور ہم نے یہ بھی نہ پوچھ لیا کہ اِس کام کی نجات کس چیز میں ہے؟ حضرت ابوبکرصدیقص نے فرمایا کہ: مَیں پوچھ چکا ہوں، مَیں اُٹھا اور مَیں نے کہا: تم پر میرے ماں باپ قربان! واقعی تم ہی زیادہ مستحق تھے اِس کے دریافت کرنے کے، (کہ دِین کی ہر چیز میں آگے بڑھنے والے ہو)،حضرت ابوبکر ص نے فرمایا: مَیں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا تھا کہ: اِس کام کی نجات کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ: جو شخص اُس کلمے کو قبول کرلے جس کو مَیں نے اپنے چچا (ابوطالب پر اُن کے اِنتقال کے وقت )پیش کیاتھا اور اُنھوں نے رَد کردیا تھا، وہی کلمۂ نجات ہے۔ خَفا: ناراض۔ جَلیلُ القَدر: بڑے مرتبے والا۔ فَروغ: ترقی۔ دَم: ہمَّت۔ لَلکار: پُکار۔ نِرے: صرف۔ مَدار: بنیاد۔چارۂ کار: چھُٹکارا۔ دِقَّتیں: تکلیفیں۔ رَخنہ اَندازی: خَلل۔ فائدہ:وَساوِس میں مُبتَلا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ، صحابۂ کرام ث اُس وقت رَنج وغم کی شِدَّت میں ایسے پریشان ہوگئے تھے کہ حضرت عمرص جیسے جَلیلُ القَدر بہادُر تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوگئے تھے، کہ جو شخص یہ کہے گا کہ: حضورﷺ کا وِصال ہوگیا اُس کی گردن اُڑا دوںگا، حضورﷺ تو اپنے رب سے مِلنے تشریف لے گئے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ ں طُور پر تشریف لے گئے تھے۔(تاریخ ابن جریر۲؍۲۳۲) بعض صحابہث کو یہ خَیال پیدا ہوگیا تھا کہ دِین اب ختم ہوچکا، بعض اِس سوچ میں تھے کہ اب دِین کے فَروغ کی کوئی صورت نہیںہوسکتی، بعض بالکل گُم تھے کہ اُن سے بولا ہی نہیں جاتا تھا، ایک ابوبکر صدیقص کا دَم تھا جو حضورﷺکے ساتھ کمالِ عشق، کمالِ مَحبَّت کے باوجود اُس وقت ثابت قَدم اور جَمے ہوئے قدم سے کھڑے تھے، اُنھوں نے لَلکار کر خطبہ پڑھا، جس میں ﴿وَمَامُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ﴾ والی آیت پڑھی، جس کا ترجَمہ ہے کہ: محمدﷺ نِرے رسول ہی تو ہیں، (خدا تو نہیں ہیں جسے موت آہی نہ سکے)؛پس کیا اگر وہ مرجائیں یا شہید ہوجائیں تو تم لوگ (دِین سے)پھر جاؤگے؟ اور جو شخص (دِین سے)پھر جائے گا وہ خدا کا توکوئی نقصان نہیں کرے گا، (اپنا ہی کچھ کھووے گا)۔مختصر طور پر اِس قِصَّے کو مَیں اپنے رِسالہ: ’’حکایات صحابہث‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔ آگے جو ارشاد ہے کہ: ’’اِس کام کی نجات کیا ہے‘‘؟ اِس کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ دِین کے کام تو بہت سے ہیں، اُن سب کاموں میں مَدار کس چیز پر ہے کہ جس کے بغیر چارۂ کار نہ ہو؟ اِس مطلب کے موافق جواب ظاہر ہے کہ دِین کا سارامدار کلمۂ شہادت پر ہے، اور اِسلام کی جڑ ہی کلمۂ طیِّبہ ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ، اِس کام یعنی دِین میں دِقَّتیں بھی پیش آتی ہیں،