فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
وَتَحِیَّۃٍ- کے درمیان کلمۂ طیبہ کا جتنا زور اور کثرت ہے کسی اُمَّت میں بھی اِتنی کثرت نہیں ہے، مشائخِ سلوک کی لاکھوں نہیں، کڑوڑوں کی مقدار ہے، اور پھر ہر شیخ کے کم وبیش سیکڑوں مرید، اور تقریباً سب ہی کے یہاں کلمۂ طیبہ کا وِرد ہزاروں کی مقدار میں روزانہ کے معمولات میں داخل ہے۔ ’’جامعُ الاصول‘‘ میں لکھا ہے کہ: لفظ ِ’’اللہ‘‘ کاذکر وِرد کے طور پر کم از کم پانچ ہزار کی مقدار ہے، اور زیادہ کے لیے کوئی حد نہیں، اور صوفیا کے لیے کم از کم پچیس ہزار روزانہ؛ اورلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کی مقدار کے متعلِّق لکھا ہے کہ: کم ازکم پانچ ہزار روزانہ ہو۔ یہ مقداریں مشائخِ سلوک کی تجویز کے موافق کم وبیش ہوتی رہتی ہے، میرا مقصود حضرت عیسیٰ عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کی تائید میں مشائخ کا انداز بیان کرنا ہے، کہ ایک ایک شخص کے لیے روزانہ کی مقداریں کم از کم یہ بتائی گئی ہیں۔ ہمارے حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ’’قولِ جمیل‘‘ میں اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ: مَیں ابتدائے سلوک میں ایک سانس میں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ دوسو مرتبہ کہا کرتا تھا۔ شیخ ابویزید قُرطُبیؒ فرماتے ہیں: مَیں نے یہ سنا کہ: جو شخص سَتَّر ہزار مرتبہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ پڑھے اُس کو دوزخ کی آگ سے نجات ملے، مَیں نے یہ خبر سن کر ایک نصاب یعنی ستر ہزار کی تعداد اپنی بیوی کے لیے بھی پڑھا، اور کئی نصاب خود اپنے لیے پڑھ کر ذخیرۂ آخرت بنایا، ہمارے پاس ایک نوجوان رہتا تھا، جس کے متعلِّق یہ مشہور تھا کہ: یہ صاحبِ کَشف ہے، جنت دوزخ کا بھی اِس کو کَشف ہوتا ہے، مجھے اُس کی صِحَّت میں کچھ تردُّد تھا، ایک مرتبہ وہ نوجوان ہمارے ساتھ کھانے میں شریک تھا کہ دفعۃً اُس نے ایک چیخ ماری اور سانس پھولنے لگا، اور کہا کہ: میری ماںدوزخ میں جل رہی ہے اُس کی حالت مجھے نظر آئی، قُرطُبیؒ کہتے ہیں کہ: مَیں اُس کی گھبراہٹ دیکھ رہا تھا، مجھے خیال آیا کہ ایک نصاب اُس کی ماں کو بخش دوں جس سے اِس کی سچائی کا بھی مجھے تجربہ ہوجائے گا؛ چناںچہ مَیں نے ایک نصاب سَتَّر ہزار کا -اُن نصابوں میں سے جو اپنے لیے پڑھے تھے- اُس کی ماں کو بخش دیا، مَیں نے اپنے دل میں چُپکے ہی سے بخشا تھا اور میرے اِس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سِوا کسی کو نہ تھی؛ مگر وہ نوجوان فوراً کہنے لگا: چچا! میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔ قرطبیؒ کہتے ہیں کہ: مجھے اِس قِصَّے سے دوفائدے ہوئے: ایک تو اُس برکت کا جو سَتَّر ہزار کی مقدار پر مَیں نے سنی تھی، اُس کاتجربہ ہوا، دوسرے: اُس نوجوان کی سچائی کا یقین ہوگیا۔(روض الریاحین،ص:۲۱۹حکایت:۳۴۸) یہ ایک واقعہ ہے، اِس قِسم کے نہ معلوم کتنے واقعات اِس اُمَّت کے اَفراد میں پائے جاتے ہیں!!۔ صوفیا کی اِصطِلاح میں ایک معمولی چیز ’’پاس اَنفاس‘‘ ہے، یعنی اِس کی