فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
سے ایک شخص کو مُنتخب فرماکر تمام دنیا کے سامنے بلائیںگے، اور اُس کے سامنے نَنانوے دفتر اَعمال کے کھولیںگے، ہر دفتر اِتنا بڑا ہوگا کہ مُنتہائے نظر تک (یعنی جہاں تک نگاہ جاسکے وہاں تک) پھیلا ہوا ہوگا، اِس کے بعد اُس سے سوال کیاجائے گا کہ: اِن اعمال ناموں میں سے تُو کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا میرے اُن فرشتوں نے جو اعمال لکھنے پرمُتعَیَّن تھے تجھ پر کچھ ظلم کیا ہے؟ (کہ کوئی گناہ بغیر کیے ہوئے لکھ لیا ہو، یا کرنے سے زیادہ لکھ لیا ہو؟)وہ عرض کرے گا: نہیں، (نہ اِنکار کی گنجائش ہے نہ فرشتوں نے ظلم کیا)،پھر ارشاد ہوگا کہ: تیرے پاس اِن بداعمالیوں کا کوئی عذر ہے؟ وہ عرض کرے گا کہ: کوئی عذر بھی نہیں، ارشاد ہوگا:اچھا! تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے، آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہے، پھر ایک کاغذ کا پُرزہ نکالاجائے گا جس میں أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَأَشهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہٗ وَرَسُولُہٗ لکھا ہوا ہوگا، ارشاد ہوگا کہ: جا، اِس کوتُلوالے، وہ عرض کرے گا کہ: اِتنے دفتروں کے مُقابلے میں یہ پُرزہ کیا کام دے گا؟ ارشاد ہوگا کہ: آج تجھ پر ظلم نہیں ہوگا، پھر اِن سب دفتروں کو ایک پَلڑے میں رکھ دیا جاوے گا اور دوسری جانب وہ پُرزہ ہوگا، تو دفتروں والاپلڑا اُڑنے لگے گا اُس پُرزے کے وَزن کے مقابلے میں۔ پس بات یہ ہے کہ، اللہ کے نام سے کوئی چیز وزنی نہیں۔ پُرزہ: ٹکڑا۔ پاداش: سزا۔ گِرفت: پکڑ۔ قَطعی: یقینی۔ مُہلِک: برباد کرنے والا۔ مُقتَدا: امام۔ سِمِّ قاتِل: قتل کردینے والا زَہر۔ مُنہدِم: گِرانا۔ اِعانت: مدد۔ مَکَّار: دھوکے باز۔ کَذَّاب : جھوٹے۔ فائدہ: یہ اخلاص ہی کی برکت ہے کہ ایک مرتبہ کلمۂ طیبہ اخلاص کے ساتھ کا پڑھا ہوا اُن سب دَفتروں پر غالب آگیا؛ اِسی لیے ضروری ہے کہ آدمی کسی مسلمان کوبھی حقیر نہ سمجھے اور اپنے کو اُس سے اَفضل نہ سمجھے، کیا معلوم کہ اُس کا کون سا عمل اللہ کے یہاں مَقبول ہوجائے جو اُس کی نجات کے لیے کافی ہوجائے؟ اور اپنا حال معلوم نہیں کہ کوئی عمل قابل قبول ہوگا یا نہیں؟۔ حدیث شریف میں ایک قِصَّہ آتا ہے کہ: بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے: ایک عابد تھا دوسرا گنہ گار، وہ عابد اُس گنہ گار کو ہمیشہ ٹوکا کرتا تھا، وہ کہہ دیتا کہ: مجھے میرے خدا پر چھوڑ، ایک دن اُس عابد نے غُصے میں آکر کہہ دیا کہ: خدا کی قَسم! تیری مَغفِرت کبھی نہیں ہوگی، حق تَعَالیٰ شَانُہٗنے عالَمِ ارواح میںدونوں کو جمع فرمایا، اور گنہگار کو اِس لیے کہ وہ رحمت کا اُمیدوار تھا، مُعاف فرمایا، اور عابد کو اِس قََسم کھانے کی پاداش میں عذاب کاحکم فرمادیا۔ (مسلم،باب فضل الضعفاء والخاملین، کتاب البر والصلۃ، ۲؍۳۲۹حدیث:۲۶۲۱) اور اِس میں کیا شک ہے کہ یہ قَسَم نہایت سخت تھی، خود حق تَعَالیٰ شَانُہٗتو ارشاد فرمائیں: ﴿إِنَّ اللہَ لَایَغفِرُ أَن یُّشْرَکَ بِہٖ، وَیَغفِرُ مَادُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَّشَآئُ﴾ (حقتَعَالیٰ شَانُہٗ کُفر وشِرک کی مَغفِرت نہیں فرمائیںگے، اِس کے عِلاوہ ہر گناہ کی جس کے لیے چاہیںگے مغفرت فرماویںگے) تو کسی کو کیاحق ہے یہ کہنے کا کہ: فلاں کی مغفرت نہیں ہوسکتی؟ لیکن اِس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مَعاصی پر، گناہوں پر، ناجائز باتوں پر گِرفت نہ کی جائے، ٹوکا نہ جائے، قرآن وحدیث میں سیکڑوں جگہ اِس کاحکم ہے، نہ ٹوکنے پر وَعید ہے۔ احادیث میں بہ کثرت آیا ہے کہ: جو لوگ کسی گناہ کو کرتے دیکھیں اور اُس کے روکنے پر قادر ہوں اور نہ روکیں تو وہ خود اُس کی سزا میں مبتلا