فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
من طریق طلحۃ بن خراش عنہ. وقال الحاکم: صحیح الإسناد، قلت: رواہ الحاکم بسندین وصححهما، وأقرہ علیهما الذهبي، وکذا رقم لہ بالصحۃ السیوطي في الجامع) ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: تمام اَذکار میں افضل لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ ہے، اور تمام دعاؤں میں افضل اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ہے۔ فائدہ:لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ کا اَفضلُ الذِّکر ہونا تو ظاہر ہے، اور بہت سی احادیث میں کثرت سے وارد ہوا ہے، نیزسارے دِین کا مدار ہی کلمۂ توحید پر ہے توپھر اُس کے افضل ہونے میں کیا تردُّد ہے۔ اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کو اَفضلِ دعا اِس لِحاظ سے فرمایا کہ، کریم کی ثَنا کا مطلب سوال ہی ہوتا ہے، عام مُشاہَدہ ہے کہ کسی رَئیس، اَمیر، نواب کی تعریف میں قَصیدہ خوانی کا مطلب اُس سے سوال ہی ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباسص فرماتے ہیں کہ: جو شخص لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ پڑھے اُس کے بعد اُس کو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بھی کہنا چاہیے؛ اِس لیے کہ قرآن پاک میں ﴿فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنِ﴾ کے بعد ﴿اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ﴾ وارد ہے۔(مستدرک حاکم۲؍۴۷۶حدیث: ۳۶۳۹؍۷۷۶) مُلاَّعلی قاریؒ فرماتے ہیں: اِس میں ذَرا بھی شک نہیں کہ تمام ذکروں میں افضل اور سب سے بڑھا ہوا ذکر کلمۂ طیبہ ہے، کہ یہی دِین کی وہ بنیاد ہے جس پر سارے دین کی تعمیر ہے، اور یہ وہ پاک کلمہ ہے کہ دِین کی چکی اُسی کے گِرد گھومتی ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الدعوات،باب ثواب التسبیح والتحمید،باب ذکر اللہ والتقرب الیہ۔ص:۔۔۔۔۔۔۔۔) اِسی وجہ سے صوفیا اور عارِفین اِسی کلمے کا اِہتِمام فرماتے ہیں، اور سارے اَذکار پر اِس کو ترجیح دیتے ہیں، اور اِسی کی جتنی ممکن ہو کثرت کراتے ہیں، کہ تجربے سے اِس میں جس قدر فوائد اور مَنافِع معلوم ہوئے ہیں کسی دوسرے میں نہیں۔ چناںچہ سید علی بن مَیمُون مَعرَبیؒ کا قِصَّہ مشہور ہے، کہ جب شیخ عُلوان حَموِیؒ -جو ایک مُتبَحِّرعالم اور مفتی اور مُدرِّس تھے- سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور سید صاحب کی اُن پر خُصوصی توجُّہ ہوئی تو اُن کو سارے مَشاغِل: دَرس تدریس، فتویٰ وغیرہ سے روک دیا، اور سارا وقت ذکر میں مشغول کردیا، عوام کا تو کام ہی اِعتِراض اور گالیاں دینا ہے، لوگوں نے بڑا شور مچایا، کہ شیخ کے مَنافِع سے دنیا کو محروم کردیا، اور شیخ کو ضائع کردیا، وغیرہ وغیرہ؛ کچھ دنوں بعد سید صاحب کو معلوم ہوا کہ شیخ کسی وقت کلامُ اللہ کی تلاوت کرتے ہیں، سید صاحب نے اُس کو بھی منع کردیا، تو پھر توپوچھنا ہی کیا؟ سید صاحبؒ پر زِندیقی اور بددینی کا اِلزام لگنے لگا؛ لیکن چند ہی روز بعد شیخ پر ذکر کا اَثر ہوگیا اور دل رنگ گیا تو سید صاحبؒ نے فرمایا کہ: اب تلاوت شروع کردو، کلام پاک جو کھولا تو ہر ہر لفظ پر وہ وہ عُلوم ومَعارف کھُلے کہ پوچھنا ہی کیا ہے! سید صاحبؒ نے فرمایا کہ: مَیں نے خدانہ خواستہ تلاوت کو منع نہیں کیا تھا؛ بلکہ اِس چیز کو پیدا کرنا چاہتا تھا۔(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الدعوات،باب ذکر اللہ عزوجل والتقرب الیہ،الفصل الثانی۴؍۶۳)