فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
یارسولَ اللہ! مَیں تومنافق ہوگیا، حضورﷺنے فرمایا کہ: ’’کیابات ہوئی؟‘‘ حنظلہص نے عرض کیا کہ: جب ہم لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ جنت دوزخ کا ذکر فرماتے ہیں، تب تو ہم ایسے ہوجاتے ہیں کہ گویا وہ ہمارے سامنے ہیں؛ لیکن جب خدمتِ اقدس سے چلے جاتے ہیں تو جاکر بیوی بچوں اور گھربار کے دھندوں میں لگ کربھول جاتے ہیں، حضورﷺنے ارشادفرمایاکہ: ’’اُس ذات کی قَسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تمھارا ہر وقت وہی حال رہے جیسامیرے سامنے ہوتا ہے توفرشتے تمھارے سے بستروں پر اور راستوں میںمصافحہ کرنے لگیں؛ لیکن حنظلہ! بات یہ ہے کہ گاہے گاہے،گاہے گاہے‘‘۔ (مسلم، ۲؍۳۵۵۔احیاء) فائدہ:یعنی آدمی کے ساتھ انسانی ضرورتیں بھی لگی ہوئی ہیںجن کوپوراکرنا بھی ضروری ہے: کھانا، پینا، بیوی بچے، اور اُن کی خیرخبر لینا؛ یہ بھی ضروری چیزیںہیں؛ اِس لیے اِس قِسم کے حالات کبھی کبھی حاصل ہوتے ہیں، نہ ہر وقت یہ حاصل ہوتے ہیں اور نہ اِس کی امید رکھنا چاہیے، یہ فرشتوں کی شان ہے کہ اُن کو کوئی دوسرا دھندا ہی نہیں، نہ بیوی بچے، نہ فکرِمَعاش اور نہ دنیوی قصے، اور انسان کے ساتھ چوںکہ بشری ضروریات لگی ہوئی ہیں؛ اِس لیے وہ ہر وقت ایک سی حالت پر نہیں رہ سکتا؛ لیکن غور کی بات یہ ہے کہ صحابۂ کرام ث کو اپنے دین کی کتنی فکر تھی؟ کہ ذرا سی بات سے کہ حضور ﷺکے سامنے جوحالت ہماری ہوتی ہے وہ بعد میں نہیںرہتی، اِس سے اپنے منافق ہونے کا اُن کوفکرہوگیا۔ ع عشق است وہزار بدگمانی عشق جس سے ہوتا ہے اُس کے متعلِّق ہزاربدگمانی اور فکر ہوجاتا ہے، بیٹے سے محبت ہو اور وہ کہیں سفرمیں چلاجائے پھردیکھیے! ہروقت خیریت کی خبر کا فکر رہتا ہے، اورجویہ بھی معلوم ہوجائے کہ وہاں طاعون ہے یافساد ہوگیا، پھر خدا جانے کتنے خطوط اور تار پہنچیںگے!!۔ (تکمیل) اللہ کے خوف کے متفرِّق اَحوال قرآن شریف کی آیات اورحضورﷺ کی احادیث اور بزرگوں کے واقعات میں اللہ جَلَّ شَانُہٗ سے ڈر کے متعلِّق جتناکچھ ذکر کیا گیا ہے، اُس کااِحاطہ تودشوار ہے؛ لیکن مختصر طور پراِ تنا سمجھ لینا چاہیے کہ دِین کے ہرکمال کازِینہ اللہ کاخوف ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’حکمت کی جڑ اللہ کاخوف ہے‘‘۔ حضرت ابن عمرصبہت رویاکرتے تھے، حتی کہ روتے روتے آنکھیں بھی بیکار