فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: قِیامت کے دن ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ: عقل مند لوگ کہاں ہیں؟ لوگ پوچھیں گے کہ: عقل مندوں سے کون مراد ہیں؟ جواب ملے گا: وہ لوگ جو اللہ کا ذکر کرتے تھے کھڑے اور بیٹھے اورلیٹے ہوئے، (یعنی ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے)،اور آسمانوں اور زمینوں کے پیدا ہونے میں غور کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ: یا اللہ! آپ نے یہ سب بے فائدہ تو پیدا کیا ہی نہیں، ہم آپ کی تسبیح کرتے ہیں، آپ ہم کو جہنَّم کے عذاب سے بچالیجیے؛ اِس کے بعد اُن لوگوں کے لیے ایک جھنڈا بنایا جائے گا جس کے پیچھے یہ سب جائیںگے، اور اُن سے کہاجائے گا کہ: ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ مَظاہِر: ظاہر ہونے کی جگہیں۔مَعرفَت: پہچان۔ مُرسَل: وہ حدیث جس میں تابعی کے اوپر کا راوی ساقط ہو۔ وَراء ُالوراء: دُور سے دُور۔ شکرگُزار: شکر کرنے والا۔ اِضافہ: زیادتی۔کُنجی: چابی۔ خَفی: آہستہ۔ دوچند: دوگنا۔ کِراماً کاتِبین: اعمال لکھنے والے فرشتے۔ رَمز: اشارہ۔ لَحظہ: گھڑی۔مزید براں: اِس سے بڑھ کر۔ دِق:تنگ۔ فَواحِش: گناہ۔ تجویز: متعیَّن۔ فائدہ: آسمانوں اور زمینوں کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں، یعنی اللہ کی قدرت کے مَظاہِر اور اُس کی حِکمتوں کے عَجائب سوچتے ہیں، جس سے اللہ د کی مَعرفَت میں قوَّت پیدا ہوتی ہے۔ع اِلٰہی! یہ عالَم ہے گلزار تیرا ابنِ اَبی الدُّنیاؒ نے ایک مُرسَل روایت نقل کی ہے کہ: نبیٔ اکرم ﷺ ایک مرتبہ صحابہث کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے جو چُپ چاپ بیٹھے تھے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا بات ہے؟ کس سوچ میں بیٹھے ہو؟ عرض کیا: مَخلُوقاتِ اِلٰہِیَّہ کی سوچ میںہیں، حضورﷺنے ارشاد فرمایا: ہاں! اللہ کی ذات میں غور نہ کیا کرو (کہ وہ وَراء ُالوراء ہے)،اُس کی مخلوقات میں غور کیا کرو۔(ابن ابی الدنیا۔۔۔۔۔۔) حضرت عائشہرَضِيَ اللہُ عَنْہَاسے ایک شخص نے عرض کیا کہ: حضورﷺ کی کوئی عجیب بات سنا دیجیے، فرمایا: حضورﷺکی کون سی بات ایسی تھی جو عجیب نہ تھی؟ ایک مرتبہ رات کو تشریف لائے، میرے بسترے پر میرے لِحاف میں لیٹ گئے، پھر ارشاد فرمایا: چھوڑ مَیں تو اپنے رب کی عبادت کروں، یہ فرماکر اُٹھے، وُضو فرمایا، اور نماز کی نیت باندھ کر رونا شروع کردیا، یہاں تک کہ آنسو سینۂ مبارک پر بہتے رہے، پھر اِسی طرح رکوع میں روتے رہے، پھر سجدہ میں اِسی طرح روتے رہے، ساری رات اِسی طرح گزار دی؛ حتیٰ کہ صبح کی نماز کے واسطے حضرت بلال ص بُلانے کے لیے آگئے، مَیں نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! آپ تو بخشے بخشائے ہیں پھر آپ اِتنا کیوں روئے؟ ارشاد فرمایا کہ: کیا مَیں اللہ کا شکرگُزار بندہ نہ بنوں؟ پھر فرمایا: مَیں کیوں نہ روتا حالاںکہ آج یہ آیتیں نازل ہوئیں: (یعنی آیاتِ بالا: ﴿إِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ﴾ سے ﴿فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ تک)، پھر فرمایا کہ: ہلاکت ہے اُس شخص کے لیے جو اِن کو پڑھے اور غور وفکر نہ کرے۔(ابن حبان،حدیث:۶۲۰) عامِر بن عَبدِقَیسؒ کہتے ہیں کہ: مَیں نے صحابۂ کرام ث سے سنا ہے: ایک