فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
تھے، چچا کے پاس رہتے تھے، وہ بہت اچھی طرح رکھتا تھا، گھر والوں سے چھپ کرمسلمان ہوگئے تھے، چچا کو خبر ہوگئی تو اُس نے غُصے میں بالکل ننگا کرکے نکال دیا، ماں بھی بیزار تھی؛ لیکن پھرماں تھی، ایک موٹی سی چادر ننگا دیکھ کر دے دی، جس کو اُنھوں نے دو ٹکڑے کرکے ایک سے سَتر ڈَھکا، دوسرا اوپر ڈال لیا، مدینۂ طَیبہ حاضر ہوگئے، حضورﷺ کے دروازے پر پڑے رہا کرتے، اور بہت کثرت سے بلند آواز کے ساتھ ذکر کرتے تھے، حضرت عمرص نے فرمایا کہ: کیا یہ شخص رِیاکار ہے کہ اِس طرح ذکر کرتا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: نہیں؛ بلکہ یہ اَوَّاہِین میں ہے۔ (حلیۃ الاولیاء۱؍۳۶۵) غزوۂ تبوک میں انتقال ہوا، صحابہث نے دیکھا کہ: رات کو قبروں کے قریب چَراغ جَل رہا ہے، قریب جاکر دیکھا کہ: حضورﷺ قبر میں اُترے ہوئے ہیں، حضرت ابوبکرص، حضرت عمرص کو ارشاد فرمارہے ہیں کہ: لاؤ! اپنے بھائی کو مجھے پکڑا دو، دونوں حضرات نے نعش کو پکڑا دیا، دفن کے بعد حضورﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ! مَیں اِس سے راضی ہوں تُو بھی اِس سے راضی ہوجا‘‘۔ حضرت ابنِ مسعود ص فرماتے ہیں کہ: یہ سارا منظر دیکھ کر مجھے تمنا ہوئی کہ یہ نعش تومیری ہوتی!۔ (حلیۃ الاولیاء۱؍۱۲۲) حضرت فُضیلؒ جو اکابرِ صوفیا میں ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ: کسی عمل کو اِس وجہ سے نہ کرنا کہ لوگ دیکھیںگے یہ بھی رِیا میں داخل ہے، اور اِس وجہ سے کسی عمل کو کرنا تاکہ لوگ دیکھیں یہ شرک میں داخل ہے۔(حلیۃ الاولیاء۸؍۹۵) ایک حدیث میں آیا ہے کہ: بعض آدمی ذکر کی کُنجیاں ہیں، کہ جب اُن کی صورت دیکھی جائے تو اللہ کا ذکر کیا جائے، یعنی اُن کی صورت دیکھ کر ہی اللہ کا ذکر یاد آجائے۔ (طبرانی،۱۰؍۲۵۳۔ حدیث: ۱۰۴۷۶) ایک اَور حدیث میں وارد ہے کہ: اللہ کے وَلی ہیں وہ لوگ جن کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آتے ہیں۔(طبرانی،۱۲؍۱۳حدیث:۱۲۳۲۵) ایک حدیث میں آیا ہے کہ: تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ کی یاد تازہ ہو۔ ایک حدیث میں ہے: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آتے ہوں، اور اُس کے کلام سے علم میں ترقی ہوتی ہو، اور اُس کے اعمال سے آخرت کی رَغبت پیدا ہوتی ہو۔(کنز العمال،مسند ابویعلیٰ۲؍۲۸۵حدیث:۲۴۴۰) اور یہ بات جب ہی حاصل ہوسکتی ہے جب کوئی شخص کثرت سے ذکر کا عادی ہو، اور جس کو خود ہی توفیق نہ ہو اُس کو دیکھ کر کیا کسی کو اللہ کی یاد آسکتی ہے!۔ بعض لوگ پُکار کر ذکر کرنے کو بدعت اور ناجائز بتاتے ہیں، یہ خَیال حدیث پر نظر کی کمی سے پیدا ہوگیا ہے، مولانا عبدالحی صاحبؒ نے ایک رِسالہ