فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗنے کوئی چیز بندوں پر ایسی فرض نہیں فرمائی جس کی کوئی حد مُقرَّر نہ کردی ہو اور پھر اُس کے عُذر کو قبول نہ فرمالیا ہو،بجُز اللہ کے ذکر کے، کہ نہ اُس کی کوئی حد مقرر فرمائی اور نہ عقل رہنے تک کسی کو مَعذور قرار دیا ہے؛ چناںچہ ارشاد ہے: ﴿اُذکُرُوا اللہَ ذِکْراً کَثِیراً﴾ (اللہ جَلَّ شَانُہٗکا خوب کثرت سے ذکر کیا کرو)رات میں، دن میں، جنگل میں، دریا میں، سفر میں،حَضَر میں، فَقر میں، تَوَنگَری میں، بیماری میں، صحت میں، آہستہ اور پُکار کر، اور ہر حال میں۔(تفسیر ابن جریر۔۔۔۔۔۔۔) حافظ ابنِ حجرؒ نے ’’مُنبِّہات‘‘ میں لکھا ہے کہ: حضرت عثمان ص سے قرآنِ پاک کے ارشاد ﴿وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَّہُمَا﴾ میںمنقول ہے کہ: وہ سونے کی ایک تختی تھی جس میںسات سطریں لکھی ہوئی تھیں، جن کا ترجَمہ یہ ہے: (۱) مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو موت کو جانتا ہو پھر بھی ہنسے۔ (۲) مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو یہ جانتا ہے کہ دنیا آخر ایک دن ختم ہونے والی ہے پھر بھی اُس میں رَغبت کرے۔ (۳)مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو یہ جانتا ہو کہ ہر چیز مُقدَّر سے ہے پھر بھی کسی چیز کے جاتے رہنے پر اَفسوس کرے۔ (۴)مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جس کو آخرت میں حساب کا یقین ہو پھر بھی مال جمع کرے۔ (۵)مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جس کو جہنَّم کی آگ کا علم ہو پھر بھی گناہ کرے۔ (۶) مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو اللہ کو جانتا ہو پھر کسی اَور چیز کا ذکر کرے۔ (۷)مجھے تعجب ہے اُس شخص پرجس کو جنَّت کی خبر ہو پھر دنیا میں کسی چیز سے راحت پائے۔ بعض نُسخوں میں یہ بھی ہے کہ: مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو شیطان کو دشمن سمجھے پھر بھی اُس کی اِطاعت کرے۔(منبہات، ص:۶۰) حافظؒ نے حضرت جابرص سے حضورﷺ کا یہ ارشادبھی نقل کیا ہے کہ: حضرت جبرئیل ں مجھے اللہ کے ذِکر کی اِس قدر تاکید کرتے رہے، کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ بغیر ذکر کے کوئی چیز نفع نہ دے گی۔(منبہات ص:۶۲) اِن سب رِوایات سے یہ معلوم ہوا کہ: ذکر کی جتنی بھی کثرت ممکن ہو دَریغ نہ کرے، لوگوں کے مجنون یا رِیاکار کہنے کی وجہ سے اِس کو چھوڑدینا اپنا ہی نقصان کرنا ہے۔ صوفیا نے لکھا ہے کہ: یہ بھی شیطان کا ایک دھوکہ ہے، کہ اوَّل وہ ذکر سے اِس خیال سے روکتا ہے کہ لوگ دیکھیںگے، کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا، وغیرہ وغیرہ؛ پھر شیطان کے روکنے کے لیے یہ ایک مُستَقِل ذریعہ اور حِیلہ مل جاتا ہے؛ اِس لیے یہ تو ضروری ہے کہ دِکھلانے کی نیت سے کوئی عمل نہ کرے؛ لیکن اگر کوئی دیکھ لے تو بَلا سے دیکھے، اِس وجہ سے چھوڑنا بھی نہ چاہیے۔ حضرت عبداللہ ذُوالبَجادَین ص ایک صحابی ہیں، جو لَڑکپن میں یتیم ہوگئے