فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ہوںگے، لوگ اُن پر رَشک کرتے ہوںگے، وہ اَنبیاء اورشُہَداء نہیں ہوںگے، کسی نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! اُن کاحال بیان کردیجیے کہ ہم اُن کو پہچان لیں، حضورﷺنے فرمایا: وہ لوگ ہوںگے جو اللہ کی مَحبَّت میںمُختلِف جگہوں سے، مختلف خاندانوں سے آکر ایک جگہ جمع ہوگئے ہوں اور اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: جنت میں یاقُوت کے سُتون ہوںگے، جن پر زَبرجَد (زُمُرَّد) کے بالاخانے ہوںگے، اُن میں چاروں طرف دَروازے کھُلے ہوئے ہوںگے، وہ ایسے چمکتے ہوںگے جیسے کہ نہایت روشن سِتارہ چمکتا ہے، اُن بالاخانوں میں وہ لوگ رہیںگے جو اللہ کے واسطے آپس میں مَحبت رکھتے ہوں، اور وہ لوگ جو اللہ ہی کے واسطے ایک جگہ اِکَٹھے ہوں، اور وہ لوگ جو اللہ ہی کے واسطے آپس میں مِلتے جُلتے ہوں۔ بالاخانے: اوپر کے کمرے۔ اَطِبَّا: ڈاکٹر۔ نوع: قِسم۔ پَنے: کاغذ۔ فِقرے: جملے۔ تَقوِیت: مضبوطی۔ اُمِّی: اَن پڑھ۔ حدیثِ قُدسی: وہ حدیث جو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بیان کریں۔ مَوضُوع: گھَڑی ہوئی۔ دَفعۃً: اچانک۔ فائدہ: اِس میں اَطِبَّا کا اِختلاف ہے کہ: زَبرجَد اور زُمُرَّد ایک ہی پتھر کے دونام ہیں، یا ایک پتھر کی دوقِسمیں ہیں، یاایک ہی نوع کے دو پتھر ہیں؛ بہرحال یہ ایک پتھر ہوتا ہے جو نہایت ہی روشن،چَمک دار ہوتا ہے، اُس کے پَنے بنتے ہیں جو بازار میں چمک دارکاغذ کی طرح سے بِکتے ہیں۔ آج خانقاہوں کے بیٹھنے والوں پر ہر طرح اِلزام ہے، ہر طرف سے فِقرے کَسے جاتے ہیں، آج اُنھیں جتنا دل چاہے بُرا بھلا کہہ لیں، کَل جب آنکھ کھلے گی اُس وقت حقیقت معلوم ہوگی، کہ یہ بوریوں پر بیٹھنے والے کیا کچھ کماکر لے گئے؟ جب وہ اُن منبروں اور بالاخانوں پر ہوںگے، اور ہنسنے والے اور گالیاں دینے والے کیا کما کرلے گئے: فَسَوْفَ تَریٰ إذَا انْکَشَفَ الْغُبَارُ ء أَفَرْسٌ تَحْتَ رِجْلِكَ أَمْ حِمَارٌ (عَن قریب جب غُبار ہٹ جائے گا تومعلوم ہوگا کہ، گھوڑے پر سوار تھے یا گدھے پر؟) اِن خانقاہوں کی اللہ کے یہاں کیاقدر ہے جن پر آج چاروں طرف سے گالیاں پڑتی ہے، یہ اُن اَحادیث سے معلوم ہوتا ہے جن میں اِن کی فضیلتیں ذکر کی گئی ہیں: ایک حدیث میں وارد ہے کہ: جس گھر میں اللہ کاذکر کیا جاتا ہو وہ آسمان والوں کے لیے ایسا چمکتا ہے جیسے زمین والوں کے لیے ستارے چمکتے ہیں۔(معرفۃ الصحابۃ لا ٔبي نعیم،۔۔۔۔۔حدیث:۳۶۵۲) ایک حدیث میں ہے کہ: ذکر کی مجالس پر جو سکینہ (ایک خاص نعمت) نازل ہوتی ہے، فرشتے اُن کو گھیر لیتے ہیں، رحمتِ الٰہی اُن کو ڈھانک لیتی ہے، اور اللہد عرش پر اُن کاذکر فرماتے ہیں۔ (مسلم،باب فضل الاجتماع علیٰ تلاوۃ القرآن،حدیث:۲۷۰۰،۲؍۳۴۵) ابو زَینص ایک صحابی ہیں، وہ کہتے ہیں: حضورﷺ نے فرمایا کہ: تجھے دین کی تَقوِیت کی چیز بتاؤں جس سے تُو دونوں جہاں کی بھلائی