فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
نہ ہو، یہ بات شیطان کو دُور کرتی ہے اور دِین کے کاموں میں مددگار ہوتی ہے، زیادہ ہنسی سے بچتا رہ کہ اِس سے دِل مَرجاتا ہے اور چہرے کا نور جاتا رہتا ہے، جہاد کرتے رہنا کہ میری اُمَّت کی فقیری یہی ہے، مسکینوں سے محبت رکھنا، اُن کے پاس اکثر بیٹھتے رہنا، اور اپنے سے کم حیثیت لوگوں پرنگاہ رکھنا، اور اپنے سے اونچے لوگوں پرنگاہ نہ کرنا کہ اِس سے اللہ کی اُن نعمتوں کی ناقدری پیدا ہوتی ہے جو اللہ نے تجھے عطا فرمائی ہیں، قَرابت والوں سے تعلُّقات جوڑنے کی فکر رکھنا وہ اگرچہ تجھ سے تعلقات توڑ دیں، حق بات کہنے میں تردُّد نہ کرنا گو کسی کو کڑوی لگے، اللہ کے معاملے میں کسی کی مَلامَت کی پَروا نہ کرنا، تجھے اپنی عیب بِینی دوسروں کے عیوب پر نظر نہ کرنے دے، اور جس عیب میں خود مُبتَلا ہو اُس میں دوسرے پر غصہ نہ کرنا۔ اے ابو ذر! حُسنِ تدبیر سے بڑھ کر کوئی عقل مندی نہیں، اور ناجائز اُمور سے بچنا بہترین پرہیزگاری ہے، اور خوش خُلقی کی برابر کوئی شَرافت نہیں۔ فائدہ: سَکینہ کے معنیٰ سکون ووَقار کے ہیں یا کسی مخصوص رحمت کے، جس کی تفسیر میں مختلف اَقوال ہیں، جن کو مختصر طور پر مَیں اپنے رسالہ ’’چہل حدیثِ جدید در فضائلِ قرآن‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ: یہ کوئی ایسی مخصوص چیز ہے جو طمانینت، رحمت، وغیرہ سب کو شامل ہے، اور ملائکہ کے ساتھ اُترتی ہے۔ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا اِن چیزوں کو فرشتوں کے سامنے تفاخُر کے طور پر فرمانا ایک تو اِس وجہ سے ہے کہ: فرشتوں نے حضرت آدم ں کی پیدائش کے وقت عرض کیا تھا کہ: یہ لوگ دنیا میں فساد کریں گے، جیسا کہ پہلی حدیث کے ذیل میں گزر چکا ہے۔ دوسرے اِس وجہ سے ہے کہ: فرشتوں کی جماعت اگرچہ سراپاعبادت، سراپا بندگی واطاعت ہے؛ لیکن اُن میں مَعصِیت کامادّہ بھی نہیں ہے، اور انسان میں چوںکہ دونوں مادے موجود ہیں، اور غفلت اور نافرمانی کے اسباب اُس کو گھیرے ہوئے ہیں، شَہوَتیںاورلَذَّتیں اُس کا جُزو ہیں؛ اِس لیے اُس سے اِن سب کے مقابلے میں جو عبادت، جو اِطاعت ہو، اور جومَعصِیت کامقابلہ ہو، وہ زیادہ قابلِ مَدح اور قابلِ قدر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ: جب حق تَعَالیٰ شَانُہٗنے جنت کو بنایا تو حضرت جبرئیل ںکو ارشاد ہوا کہ: اُس کو دیکھ کر آؤ، اُنھوں نے آکرعرض کیا: یا اللہ! آپ کی عزت کی قَسم! جو شخص بھی اُس کی خبرسن لے گا اُس میں جائے بغیر نہیں رہے گا، یعنی لَذَّتیں اور راحتیں، فَرحتیں، نعمتیں جس قدر اُس میں رکھی گئی ہیں، اُن کے سننے اور یقین آجانے کے بعد کون ہوگا جو اُس میں جانے کی اِنتِہائی کوشش نہ کرے گا؟ اِس کے بعد حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اُس کو مَشقَّتوں سے ڈھانک دیا، کہ نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، جہاد کرنا، حج کرنا؛ وغیرہ وغیرہ اُس پر سوار کردیے گئے، کہ اِن کوبَجالاؤ تو جنت میں جاؤ، اور پھر