فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
(أخرجہ أحمد، والترمذي، وابن ماجہ، وابن أبي الدنیا، والحاکم، وصححہ البیهقي؛ کذا في الدر والحصن الحصین. قلت: قال الحاکم: صحیح الإسناد ولم یخرجاہ، وأقرہ علیہ الذهبي، ورقم لہ في الجامع الصغیر بالصحۃ، وأخرجہ أحمد عن معاذ بن جبل، کذا في الدر. وفیہ أیضا بروایۃ أحمد، والترمذي، والبیهقي: عَن أَبِي سَعِیدٍ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: أَيُّ العِبَادِ أَفضَلُ دَرَجَۃً عِندَ اللہِ یَومَ القِیَامَۃِ؟ قَالَ: اَلذَّاکِرُونَ اللہَ کَثِیراً، قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! وَمِنَ الغَازِيْ فِي سَبِیلِ اللہِ؟ قَالَ: لَو ضَرَبَ بِسَیفِہٖ فِي الکُفَّارِ وَالمُشرِکِینَ حَتّٰی یَنکَسِرَ وَیَختَضِبَ دَماً لَکَانَ الذَّاکِرُونَ اللہَ أَفضَلُ مِنہُ دَرَجَۃً) ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺنے ایک مرتبہ صحابہث سے ارشاد فرمایا کہ: مَیں تم کو ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمام اعمال میں بہترین چیز ہے، اور تمھارے مالک کے نزدیک سب سے زیادہ پاکیزہ اور تمھارے دَرجوں کو بہت زیادہ بلند کرنے والی اور سونے چاندی کو (اللہ کے راستے میں)خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر، اور (جہاد میں) تم دشمنوں کو قتل کرووہ تم کو قتل کریں اِس سے بھی بڑھی ہوئی؟ صحابہث نے عرض کیا: ضرور بتادیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کا ذکر ہے۔ دَائمی: ہمیشہ کی۔ وَابَستہ: متعلِّق۔ عُشَّاق: عاشق لوگ۔ فائدہ: یہ عام حالت اور ہر وقت کے اعتبار سے ارشاد فرمایا ہے؛ ورنہ وَقتی ضرورت کے اعتبار سے صدقہ، جِہاد، وغیرہ اُمور سب سے اَفضل ہوجاتے ہیں، اِسی وجہ سے بعض احادیث میں اِن چیزوں کی اَفضلِیَّت بھی بیان فرمائی گئی ہے، کہ اِن کی ضرورتیں وقتی ہیں اور اللہ پاک کا ذِکر دَائمی چیز ہے اور سب سے زیادہ اَہم اور اَفضل۔ ایک حدیث میں حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: ہر چیز کے لیے کوئی صاف کرنے والی اور مَیل کُچیل دُور کرنے والی چیز ہوتی ہے (مثلاً: کپڑے اور بدن کے لیے صابُن، لوہے کے لیے آگ کی بھٹّی، وغیرہ وغیرہ)،دِلوں کی صفائی کرنے والی چیز اللہ تعالیٰ کاذکر ہے، اور کوئی چیز اللہ کے عذاب سے بچانے والی اللہ کے ذکر سے بڑھ کر نہیں ہے۔(درمنثور۱؍۲۷۵) اِس حدیث میں چوںکہ ذکر کودِل کی صفائی کا ذریعہ اور سبب بتایا ہے اِس سے بھی اللہ کے ذکر کا سب سے افضل ہونا ثابت ہوتا ہے؛ اِس لیے کہ ہر عبادت اُسی وقت عبادت ہوسکتی ہے جب اخلاص سے ہو، اور اِس کا مَدار دلوں کی صفائی پر ہے۔ اِسی وجہ سے بعض صُوفیا نے کہا ہے کہ: اِس حدیث میں ذکر سے مراد ذکرِ قلبی ہے نہ کہ زبانی ذکر، اور ذکرِ قلبی یہ ہے کہ: دل ہر وقت اللہ کے ساتھ وَابَستہ ہوجائے، اور اِس میں کیا شک ہے کہ یہ حالت ساری عبادتوں سے افضل ہے!؛ اِس لیے کہ جب یہ حالت ہوجائے تو پھر کوئی عبادت چھوٹ ہی نہیں سکتی، کہ سارے اَعضائے ظاہِرہ وباطِنہ دِل کے تابع ہیں، جس چیز کے ساتھ دِل وابَستہ ہوجاتا ہے سارے ہی اَعضا اُس کے ساتھ ہوجاتے ہیں، عُشَّاق کے حالات سے کون بے خبر ہے؟۔ اَور بھی بہت سی احادیث میں ذکر کا سب سے افضل ہونا وارد ہوا ہے۔ حضرت سَلمان ص سے کسی نے پوچھا کہ: سب سے بڑا عمل کیا ہے؟ اُنھوں نے فرمایا کہ: تم نے قرآن شریف نہیں پڑھا؟ قرآن پاک میں ہے: ﴿وَلَذِکرُ