فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
آخری گذارش مُناجات: گفتگو۔ شاق: بھاری۔ مُتَحقَّق: ادا۔ مُعظَّم: بڑا۔ ہَذیان: بے ہودہ باتیں۔ وُسعت: گنجائش۔ مَکر: فریب۔ توسُّع: وُسعت، گنجائش۔ تسامُح: درگُزر۔ صُوفیا نے لکھا ہے کہ: نمازحقیقت میں اللہ جَلَّ شَانُہٗ کے ساتھ مُناجات کرنا اورہم کلام ہونا ہے، جوغفلت کے ساتھ ہوہی نہیں سکتا، نماز کے عِلاوہ اَور عبادتیں غفلت سے بھی ہوسکتی ہیں، مثلاً زکوۃہے، کہ اِس کی حقیقت مال کاخرچ کرنا ہے، یہ خود ہی نفس کو اِتنا شاق ہے کہ اگر غفلت کے ساتھ ہو تب بھی نفس کو شاق گزرے گا، اِسی طرح روزہ، دن بھر کا بھوکا پیاسا رہنا، صحبت کی لَذَّت سے رُکنا، کہ یہ سب چیزیںنفس کو مغلوب کرنے والی ہیں، غفلت سے بھی اگر مُتَحقَّق ہوں تو نفس کی شِدَّت وتیزی پر اثر پڑے گا؛ لیکن نمازکا مُعظَّم حصہ ذکر ہے، قراء تِ قرآن ہے، یہ چیزیں اگر غفلت کی حالت میں ہوں تو مُناجات یاکلام نہیںہیں، ایسی ہی ہیں جیسے کہ بُخار کی حالت میں ہَذیان اوربکوَاس ہوتی ہے، کہ جو چیزدل میں ہوتی ہے وہ زبان پر ایسے اوقات میں جاری ہوتی ہے، نہ اُس میں کوئی مَشقَّت ہوتی ہے نہ کوئی نفع، اِسی طرح چوںکہ نمازکی عادت پڑگئی ہے؛ اس لیے اگرتوجُّہ نہ ہو تو عادت کے موافق بِلاسوچے سمجھے زبان سے الفاظ نکلتے رہیںگے، جیسا کہ سونے کی حالت میں اکثر باتیں زبان سے نکلتی ہیں، کہ نہ سننے والااُس کو اپنے سے کلام سمجھتا ہے نہ اُس کا کوئی فائدہ ہے، اِسی طرح حق تَعَالیٰ شَانُہٗ بھی ایسی نماز کی طرف اِلتِفات اور توجُّہ نہیں فرماتے جو بِلاارادہ کے ہو؛ اِس لیے نہایت اہم ہے کہ نماز اپنی وُسعت وہمت کے مُوافِق پوری توجُّہ سے پڑھی جائے؛ لیکن یہ اَمر نہایت ضروری ہے کہ: اگر یہ حالات اورکیفیات -جوپچھلوں کی معلوم ہوئی ہیں- حاصل نہ بھی ہوں، تب بھی نماز جس حال سے بھی ممکن ہو ضرور پڑھی جائے۔ یہ بھی شیطان کاایک سخت ترین مَکر ہوتا ہے، وہ یہ سمجھائے کہ بُری طرح پڑھنے سے تو نہ پڑھنا ہی اچھا ہے، یہ غلط ہے، نہ پڑھنے سے بُری طرح کا پڑھنا ہی بہتر ہے؛ اِس لیے کہ نہ پڑھنے کا جو عذاب ہے وہ نہایت ہی سخت ہے، حتیٰ کہ عُلَما کی ایک جماعت نے اُس شخص کے کُفر کافتویٰ دیا ہے جو جان بوجھ کر نمازچھوڑدے، جیسا کہ پہلے باب میں مُفصَّل گزرچکاہے؛ البتہ اِس کی کوشش ضرور ہونا چاہیے کہ، نماز کا جو حق ہے اور اپنے اَکابر اُس کے مطابق پڑھ کر دِکھا گئے ہیں، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے لُطف سے اُس کی توفیق عطا فرمائیں، اور عمر بھر میں کم از کم ایک ہی نماز ایسی ہوجائے جو پیش کرنے کے قابل ہو۔ اخیر میں اِس اَمر پر تنبیہ بھی ضروری ہے کہ، حضراتِ مُحدِّثین ث کے نزدیک فضائل کی روایات میں توسُّع ہے اورمعمولی ضُعف قابلِ تسامُح، باقی صوفیائے کرام رَحِمَهُمُ اللہُ کے واقعات تو تاریخی حیثیت رکھتے ہی ہیں، اورظاہر