فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
رَأَیْتُنَا وَمَایَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَّعْلُوْمُ النِّفَاقِ، وَلَقَدْ کَانَ الرَّجُلُ یُؤْتِيْ بِهَا یُهَادیٰ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ حَتیّٰ یُقَامَ فِيْ الصَّفِّ. وَفِيْ رِوَایَۃٍ: لَقَدْ رَأَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنِ الصَّلَاۃِ إِلَّا مُنَافِقٌ قَدْعُلِمَ نِفَاقُہٗ أَوْ مَرِیْضٌ، إِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیَمْشِيْ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ حَتیّٰ یَأْتِيْ الصَّلَاۃَ، وَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللہِﷺ عَلَّمَنَا سُنَنَ الْهُدیٰ، وَإِنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدیٰ اَلصَّلَاۃُ فِيْ الْمَسْجِدِ الَّذِيْ یُؤَذَّنُ فِیْہِ. (رواہ مسلم وأبوداود والنسائي وابن ماجہ، کذا في الترغیب والدرالمنثور. والسنۃ نوعان: سنۃ الهدیٰ، وتارکهایستوجب إساء ۃ کالجماعۃ والأذان؛ والزوائد، وتارکها لایستوجب إساء ۃ کسیرالنبيﷺ في لباسہ وقعودہ، کذا في ’’نورالأنوار‘‘ والإضافۃ في سنۃ الهدیٰ بیانیۃ، أي سنۃ هي هدیٰ، والحمل مبالغۃ کذا في قمر الأقمار) ترجَمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودص ارشاد فرماتے ہیں کہ: جو شخص یہ چاہے کہ کل قِیامت کے دن اللہجَلَّ شَانُہٗ کی بارگاہ میں مسلمان بن کر حاضر ہو، وہ اِن نمازوں کوایسی جگہ ادا کرنے کااِہتِمام کرے جہاں اذان ہوتی ہے (یعنی مسجد میں)؛ اِس لیے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗنے تمھارے نبی عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کے لیے ایسی سنتیں جاری فرمائی ہے جوسراسر ہدایت ہیں، اُنھیں میں سے یہ جماعت کی نمازیں بھی ہیں، اگر تم لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگوگے جیسا کہ فلاںشخص پڑھتا ہے، تو تم نبی ﷺکی سنت کے چھوڑنے والے ہوگے، اور یہ سمجھ لو کہ اگر نبیٔ اکرم ﷺکی سنت کوچھوڑ دوگے تو گمراہ ہوجاؤگے۔ اور جوشخص اچھی طرح وُضو کرے، اِس کے بعد مسجد کی طرف جائے توہر ہر قدم پر ایک ایک نیکی لکھی جائے گی، اورایک ایک خطا مُعاف ہوگی؛ اورہم تو اپنایہ حال دیکھتے تھے کہ: جوشخص کھلَّم کھُلامنافق ہووہ توجماعت سے رہ جاتاتھا، ورنہ حضورﷺ کے زمانے میں عام مُنافِقوں کی بھی جماعت چھوڑنے کی ہمت نہ ہوتی تھی؛ یاکوئی سخت بیمار؛ ورنہ جو شخص دوآدمیوں کے سہارے سے گھِسٹتا ہوا جاسکتا تھا وہ بھی صف میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ مرضُ الوَفات: وہ بیماری جس میں آپ ﷺ کا وِصال ہوا۔ شِدَّت: زیادتی۔ غَشی: بے ہوشی۔ تعمیلِ ارشاد: حکم کوپورا کرنا۔ دَریغ: تأمُّل، نفرت۔ فائدہ: صحابۂ کرامث کے یہاں جماعت کا اِس قدر اِہتِمام تھا کہ،اگر بیماربھی کسی طرح جماعت میں جاسکتاتھا تووہ بھی جاکر شریک ہوجاتاتھا چاہے دوآدمیوں کو کھینچ کر لے جانے کی نوبت آتی، اور یہ اِہتِمام کیوں نہ ہوتا! جب کہ اُن کے اورہمارے آقا نبیٔ اکرم ﷺکو اِسی طرح کا اِہتِمام تھا؛ چناںچہ حضورِ اقدس ﷺ کے مرضُ الوَفات میں یہی صورت پیش آئی، کہ مرض کی شِدَّت کی وجہ سے بار بار غَشی ہوتی تھی، اورکئی کئی دفعہ وُضو کاپانی طلب فرماتے تھے، آخر ایک مرتبہ وُضوفرمایا اور حضرت عباس ص اور ایک دوسرے صحابی صکے سہارے سے مسجد میں تشریف لے گئے، کہ زمین پر پاؤں مبارک اچھی طرح جَمتابھی نہ تھا، حضرت ابوبکرصنے تعمیلِ ارشاد میں نمازپڑھاناشروع کردی تھی، حضورﷺ جاکر نماز میں شریک ہوئے۔ (صحیحین۔۔۔۔۔۔) حضرت ابودرداء ص فرماتے ہیں کہ: مَیں نے حضورﷺ کویہ ارشادفرماتے سنا کہ: اللہ کی عبادت اِس طرح کر گویا وہ بالکل سامنے ہے اور تُو