فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
خداکی پناہ! حضورﷺکے زمانے میں تو ذرا بھی ہَوا تیزچلتی تھی، تو ہم سب مسجدوں کودوڑ جاتے تھے کہ کہیں قِیامت تونہیں آگئی۔ (ابوداؤد، کتاب الاستسقاء، باب الصلاۃ عند الظلمۃ ونحوھا، حدیث: ۱۱۹۶) عبداللہ بن سَلامص کہتے ہیں کہ: جب نبیٔ اکرم اکے گھروالوں پر کسی قِسم کی تنگی پیش آتی تو اُن کو نماز کا حکم فرمایاکرتے، اوریہ آیت تلاوت فرماتے: ﴿وَأْمُرْ أَہْلَکَ بِالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا، لَانَسْئَلُکَ رِزْقاً﴾ الاٰیۃ اپنے گھروالوں کونمازکاحکم کرتے رہیے اورخود بھی اِس کااِہتِمام کیجیے، ہم آپ سے روزی کَموانا نہیں چاہتے، روزی توآپ کوہم دیں گے۔ (شعب الایمان، حدیث: ۹۲۵۵۔ معجم اوسط، حدیث: ۸۸۶) ایک حدیث میں ارشادہے کہ: جس شخص کوکوئی بھی ضرورت پیش آئے-دینی ہو یادنیوی، اُس کاتعلُّق مالِکُ المُلک سے ہو یاکسی آدمی سے- اُس کو چاہیے کہ، بہت اچھی طرح سے وُضو کرے، پھر دو رکعت نمازپڑھے، پھراللہ جَلَّ شَانُہٗ کی حمدوثنا کرے، اور پھر درود شریف پڑھے، اِس کے بعدیہ دعاپڑھے توإِنْ شَاءَ اللہ اُس کی حاجت ضرور پوری ہوگی، دعایہ ہے: لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ؛ أَسْئَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، لَاتَدَعْ لِيْ ذَنْباً إِلَّاغَفَرْتَہٗ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ! وَلَاهَمّاً إِلَّا فَرَّجْتَہٗ، وَلَاحَاجَۃً هِيَ لَكَ رِضاً إِلَّا قَضَیْتَهَا یَاأَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ!.(ترمذي، ابواب الوتر، باب ماجاء في صلاۃ الحاجۃ، حدیث: ۴۷۹) وَہَب بن مُنبَّہؒ کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ سے حاجتیں نمازکے ذریعے طلب کی جاتی ہیں، اور پہلے لوگوں کوجب کوئی حادثہ پیش آتاتھا وہ نماز ہی کی طرف مُتوجَّہ ہوتے تھے، جس پر بھی کوئی حادثہ گزرتا وہ جلدی سے نماز کی طرف رُجوع کرتا۔ کہتے ہیں کہ: کوفہ میں ایک قُلی تھا، جس پرلوگوں کوبہت اِعتماد تھا، اَمین ہونے کی وجہ سے تاجروں کاسامان، روپیہ وغیرہ بھی لے جاتا، ایک مرتبہ وہ سفر میں جا رہا تھا، راستے میں ایک شخص اُس کومِلا، پوچھا: کہاں کاارادہ ہے؟ قُلی نے کہا: فلاں شہر کا، وہ کہنے لگا کہ: مجھے بھی جانا ہے، مَیں پاؤں چل سکتا تو تیرے ساتھ ہی چلتا، کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دِینار کرایے پر مجھے خچرپر سوار کرلے؟ قُلی نے اُس کو منظور کرلیا، وہ سوار ہوگیا، راستے میں ایک دو رَاہا مِلا، سوار نے پوچھا: کدھر کو چلنا چاہیے؟ قُلی نے شارعِ عام کاراستہ بتایا، سوار نے کہاکہ: یہ دوسرا راستہ قریب کا ہے، اور جانور کے لیے بھی سَہولت کا ہے کہ سبزہ اِس پر خوب ہے، قُلی نے کہا کہ: مَیں نے یہ راستہ دیکھا نہیں، سوار نے کہا کہ: مَیں بارہا اِس راستے پر چلا ہوں، قُلی نے کہا: اچھی بات ہے، اِسی راستے کوچلیں، تھوڑی دُور چل کر وہ راستہ ایک وَحشت ناک جنگل پرختم ہوگیا جہاں بہت سے مُردے پڑے تھے، وہ شخص سواری سے اُترا، اور کمر سے خَنجر نکال کر قُلی کے قتل کرنے کا ارادہ کیا، قُلی نے کہاکہ: ایسا