فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ترجَمہ: ابوعثمان صکہتے ہیں کہ: مَیںحضرت سلمان صکے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا، اُنھوں نے اُس درخت کی ایک خُشک ٹہنی پکڑ کر اُس کوحرکت دی، جس سے اُس کے پَتے گِر گئے، پھر مجھ سے کہنے لگے کہ: ابوعثمان! تم نے مجھ سے یہ نہ پوچھا کہ مَیں نے یہ کیوں کیا؟ مَیں نے کہا: بتادیجیے، کیوں کیا؟اُنھوںنے کہا کہ: مَیں ایک دفعہ نبیٔ اکرم ﷺ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا، آپ ﷺنے بھی درخت کی ایک خُشک ٹہنی پکڑ کراِسی طرح کیا تھا، جس سے اُس ٹہنی کے پَتَّے جھَڑ گئے تھے، پھر حضورﷺنے ارشاد فرمایاتھا کہ: ’’سلمان! پوچھتے نہیں کہ مَیں نے اِس طرح کیوں کیا‘‘؟ مَیں نے عرض کیاکہ: بتادیجیے، کیوں کیا؟ آپ نے ارشاد فرمایاتھا کہ: ’’جب مسلمان اچھی طرح سے وُضو کرتا ہے، پھر پانچوں نمازیں پڑھتا ہے، تو اُس کی خطائیں اُس سے ایسی ہی گِر جاتی ہیں جیسے یہ پَتَّے گِرتے ہیں‘‘، پھرآپ ﷺ نے قرآن کی آیت ﴿أَقِمِ الصَّلوٰۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ﴾تلاوت فرمائی، جس کا ترجَمہ یہ ہے کہ: قائم کر نماز کو دن کے دونوں سِروں میں، اور رات کے کچھ حصوں میں، بے شک نیکیاں دُور کردیتی ہیں گناہوں کو، یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لیے۔ تَعَشُّق: عشق۔ بھاتی: اچھی لگتی۔ ذائِقہ: مزا۔ اَفعال: کاموں۔ اِحاطہ: جمع کرنا۔صادِر: واقع۔ مُقتَضیٰ: تقاضہ۔ اِلتفات: توجُّہ۔ قَطع: ختم۔ صَفراء: پِت۔ زَائل:ختم۔ مَضرَّتیں: نقصانات۔ فائدہ: حضرت سلمان صنے جوعمل کرکے دِکھلایا یہ صحابۂ کرام ث کے تَعَشُّق کی اَدنیٰ مثال ہے، جب کسی شخص کوکسی سے عشق ہوتا ہے اُس کی ہر اَدا بھاتی ہے، اور اُسی طرح ہر کام کرنے کو جی چاہاکرتا ہے جس طرح محبوب کو کرتے دیکھتا ہے، جو لوگ محبت کاذائِقہ چکھ چکے ہیں وہ اِس کی حقیقت سے اچھی طرح واقِف ہیں، اِسی طرح صحابۂ کرام ث نبیٔ اکرم ﷺ کے اِرشادات نقل کرنے میں اکثر اُن اَفعال کی بھی نقل کرتے تھے جو اُس اِرشاد کے وقت حضور ﷺنے کیے تھے۔ نمازکااِہتِمام اوراس کی وجہ سے گناہوں کامُعاف ہوناجس کثرت سے روایات میںذکر کیا گیا ہے، اُس کااِحاطہ دُشوار ہے، پہلے بھی متعدِّد روایات میں یہ مضمون گزر چکا ہے، عُلما نے اِس کوصغیرہ گناہوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے جیسا پہلے معلوم ہوچکا؛ مگر احادیث میں صغیرہ، کبیرہ کی کچھ قید نہیں ہے، مُطلَق گناہوں کا ذکر ہے؛ میرے والدصاحبؒ نے تعلیم کے وقت اِس کی دو وَجہیں ارشاد فرمائی تھیں: ایک یہ کہ مسلمان کی شان سے یہ بعید ہے کہ اُس کے ذمَّے کوئی کبیرہ گناہ ہو، اوّلاً تو اُس سے گناہِ کبیرہ کا صادِر ہوناہی مشکل ہے، اور اگر ہو بھی گیا تو بغیر توبہ کے اُس کوچین آنا مشکل ہے، مسلمان کی مسلمانی شان کا مُقتَضیٰ یہ ہے کہ جب اُس سے کبیرہ صادِر ہوجائے، تو اِتنے روپیٹ کر اُس کو دھو نہ لے اُس کوچین نہ آئے؛ البتہ صغیرہ گناہ ایسے ہیں کہ اُن کی طرف بسااَوقات اِلتفات نہیں ہوتا ہے اور ذِمّے پر رہ جاتے ہیں، جو نماز وغیرہ سے مُعاف ہوجاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جوشخص اخلاص سے نمازپڑھے گا اورآداب ومُستحبَّات کی رِعایت رکھے گا، وہ خود ہی نہ معلوم کتنی مرتبہ تَوبہ