فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
ذات کے لیے ہے، اگر کوئی چاہے کہ کسی دوسرے کے نام کی تسبیح پڑھ کر اُس سے تقرُّب حاصل کرلے تو یہ ممکن نہیں، اِس وجہ سے کہ اِس قِسم کے تقرب میں جس کی طرف تقرب ہو، اُس میں دو بات کا پایا جانا ضروری ہے: اوَّل یہ کہ، اُس کاعلم مُحِیط ہو ذاکرین کے قلبی اور زَبانی اذکار کو، اگرچہ وہ مختلف زمانوں اور مختلف اوقات میں ذکر کریں۔ دوسرے یہ کہ، ذکر کرنے والے کے مُدرِکہ میں تجلِّی اور اُس کے پُر کر دینے کی قدرت ہو، جس کو عرف میں ’’دُنُو اور تَدلِّی‘‘، ’’نزول اور قُرب‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں چوںکہ اُسی مطلوب میں پائی جاتی ہیں؛ اِس لیے طریقۂ بالاسے تقرُّب بھی اُسی پاک ذات سے حاصل ہوسکتاہے، اور اِسی کی طرف اُس حدیثِ قُدسی میں اشارہ ہے جس میں ارشاد ہے: مَن تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبراً تَقَرَّبتُ إِلَیہِ ذِرَاعاً. (الحدیث) ترجَمہ: جوشخص میری طرف ایک بالِشت نزدیک ہوتا ہے تو مَیں اُس کی طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں، اور جو شخص میری طرف ایک ہاتھ آتا ہے مَیں اُس کی طرف ایک باع آتا ہوں، یعنی دونوں ہاتھوں کی لمبائی کے بہ قدر، اور جو شخص میری طرف معمولی رفتار سے آتا ہے مَیں اُس کی طرف دوڑ کر چلتا ہوں۔ یہ سب تشبیہات سمجھانے کے لیے ہیں؛ ورنہ حق سُبحَانَہٗ وَتَقَدُّس چلنا، پھرنا، وغیرہ سب سے مُبرّا ہیں، مقصود یہ ہے کہ حق سُبحَانَہٗ وَتَقَدُّس اپنے یاد کرنے اور ڈھونڈنے والوں کی طرف اُن کی طَلَب اورسَعی سے زیادہ توجُّہ اور نُزُول فرماتے ہیں، اور کیوں نہ فرماویں! کہ کریم کے کَرم کا مُقتَضا یہی ہے، پس جب کہ یاد کرنے والوں کی طرف سے یاد کرنے میں دَوام ہوتا ہے توپاک آقا کی طرف سے توجُّہ اور نزول میں دَوام ہوتا ہے۔ کلامِ الٰہی چوںکہ سراسر ذکرہے، اور اُس کی کوئی آیت ذکر وتوجُّہ اِلی اللہ سے خالی نہیں؛ اِس لیے یہی بات اُس میں بھی پائی جاتی ہے؛ مگر اِس میں ایک خصوصیت زیادہ ہے جو زیادتیٔ تقرُّب کا سبب ہے، وہ یہ کہ: ہر کلام مُتکلِّم کی صفات واثرات اپنے اندر لیے ہوئے ہوا کرتا ہے، اور یہ کھُلی ہوئی بات ہے کہ فُسَّاق وفُجَّار کے اَشعار کا درد رکھنے سے اُس کے اثرات پائے جاتے ہیں، اور اَتقیا کے اَشعار سے اُن کے ثمرات پیدا ہوتے ہیں، اِسی وجہ سے منطق، فلسفے میں غُلو سے نِخوت وتکبُّر پیدا ہوتا ہے، اور حدیث کی کثرتِ مُزاوَلَت سے تواضُع پیدا ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فارسی اور انگریزی نفسِ زبان ہونے میں دونوں برابرہیں؛ لیکن مُصنِّفِین جن کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، اُن کے اختلافِ اثرات سے ثمرات میں بھی اختلاف ہوتا ہے؛ بِالجُملہ چوںکہ کلام میں ہمیشہ مُتکلِّم کے تأثُّرات پائے جاتے ہیں؛ اِس لیے کلامِ الٰہی کے تکرار، وِرد کرنے سے اُس کے متکلم کے اثرات بھی پیدا ہونا، اور اُن سے طبعاً مُناسَبت پیدا ہوجانا یقینی ہے؛ نیز ہرمُصَنِّف کا قاعدہ ہے کہ، جب کوئی شخص اُس کی تالیف کا اہتمام کیا کرتا ہے توفِطرۃً اُس کی طرف اِلتفات اور توجُّہ ہوا کرتی ہے؛ اِس لیے حق تَعَالیٰ شَانُہٗکے