فضائل اعمال ۔ یونیکوڈ ۔ غیر موافق للمطبوع |
|
رُجوع اور اُس کے یہاں تقرُّب اُس چیز سے بڑھ کر کسی اَور چیز سے حاصل نہیں کرسکتے جو خود حق سُبْحَانَہٗ سے نکلی ہے، یعنی کلامِ پاک۔ تقرُّب: نزدیکی۔ مُوجبِ تقرُّب: نزدیک کرنے والا۔ مُستنبَط: ثابت۔ مُدرِکہ: ذہن۔ مُستَحضَر: یاد رکھی ہوئی۔ اِستِحضَار کے دَوام: ہمیشہ یاد رہنے۔ مُحافِظ: حفاظت کرنے والے۔ مُحِیط: شامل۔ مُبرّا: پاک۔ مُقتَضا: تقاضہ۔ دَوام: ہمیشگی۔ اَتقیا: پرہیز گار۔ کثرتِ مُزاوَلَت: روزانہ پڑھتے رہنے۔ فائدہ: مُتعدِّد روایات سے یہ مضمون ثابت ہے کہ، حق تَعَالیٰ شَانُہٗکے دربار میں کلامِ پاک سے بڑھ کر تقرُّب کسی چیز سے حاصل نہیں ہوتا۔ امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں کہ: مَیں نے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی خواب میں زیارت کی، تو پوچھا کہ: سب سے بہتر چیز جس سے آپ کے دربار میں تقرُّب ہو، کیا چیزہے؟ ارشاد ہوا کہ: ’’احمد! میرا کلام ہے‘‘، مَیں نے عرض کیا کہ: سمجھ کر یا بِلا سمجھے؟ ارشاد ہوا کہ: ’’سمجھ کر پڑھے یابِلاسمجھے، دونوں طرح مُوجبِ تقرُّب ہے‘‘۔ اِس حدیث شریف کی توضیح اور تلاوتِ کلام پاک کا سب سے بہتر طریقۂ تقرُّب ہونے کی تشریح حضرتِ اقدس، بَقیَّۃ السَّلَف، حُجَّۃ الخَلَف مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی نَوَّرَ اللہُ مَرقَدَہٗ کی تفسیر سے مُستنبَط ہوتی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ: سُلوک اِلی اللہ یعنی مرتبۂ احسان حق سُبحَانَہٗ وَتَقَدُّس کی حضوری کانام ہے جو تین طریقوں سے حاصل ہوسکتی ہے: اول تصوُّر، جس کو عُرفِ شرع میں ’’تفکُّر وتدبُّر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، اور صوفیہ کے یہاں ’’مُراقَبہ‘‘ ہے، دوسرا ذکرِ لسانی، اور تیسرا تلاوتِ کلامِ پاک۔ سب سے اوَّل طریقہ بھی چوںکہ ذکرِ قلبی ہے؛ اِس لیے در اصل طریقے دو ہی ہیں: اوَّل ذکر، عام ہے کہ زبانی ہو یا قلبی، دوسرے: تلاوت؛ سو جس لفظ کا اِطلاق حق سُبحَانَہٗ وَتَقَدُّس پر ہوگا اور اُس کو بار بار دُہرایا جاوے گا -جو ذکرکاحاصل ہے- تو مُدرِکہ کے اُس ذات کی طرف توجُّہ اور اِلتفات کا سبب ہوگا،اور گویا وہ ذات مُستَحضَر ہوگی، اور اِستِحضَار کے دَوام کا نام ’’مَعِیَّت‘‘ ہے، جس کو اِس حدیث شریف میں ارشاد فرمایا ہے: لَایَزَالُ عَبدِي یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أَحبَبْتُ، فَکُنْتُ سَمعَہُ الَّذِي یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِيْ یَبْصُرُ، وَیَدَہُ الَّتِيْ یَبْطِشُ بِہَا. (الحدیث) ترجَمہ: حق سُبحَانَہٗ وَتَقَدُّس کا ارشاد ہے کہ: بندہ نفل عبادتوں کے ساتھ میرے ساتھ تقرُّب حاصل کرتا رہتاہے یہاں تک کہ مَیں بھی اُس کو محبوب بنالیتا ہوں، حتیٰ کہ مَیں اُس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور ہاتھ جس سے وہ کسی چیز کو پکڑتا ہے، اور پاؤں جس سے وہ چلتا ہے؛ یعنی جب کہ بندہ کثرتِ عبادت سے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا مُقرب بن جاتا ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗاُس کے اعضاء کے مُحافِظ بن جاتے ہیں، اور آنکھ، کان وغیرہ سب مرضیٔ آقا کے تابع ہوجاتے ہیں۔ اور نفل عبادات کی کثرت اِس لیے ارشاد فرمائی کہ: فرائض مُتعیَّنہ ہیں، جن میں کثرت نہیں ہوتی، اور اِس کے لیے ضرورت ہے دوامِ استحضار کی، جیسا کہ پہلے معلوم ہوچکا؛ لیکن تقرُّب کا یہ طریقہ صرف اُسی محبوب کی پاک